آج جبکہ بین الاقوامی میڈیا میں ہیڈ لائنز غزہ اور فلسطینی نسل کشی سے ہٹ کر لبنان اور ایران کی طرف مبذول ہو رہی ہے، یہ ضروری ہے کہ اس گرفتاری وارنٹ کا ذکر کریں جس کے لیے 21 مئی 2024 کو انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں اس کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے پری ٹرائیل پینل کے سامنے درخواست دی تھی۔ اس وارنٹ میں جن لوگوں کو نامزد کیا گیا تھا ان میں سے تین افراد کو، جن کا تعلق حماس سے تھا، اسرائیل اب تک قتل کر چکا ہے اور اب اس فہرست میں صرف دو نام رہ گئے ہیں۔ آپ نے درست اندازہ لگایا، یہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع گلانٹ ہیں۔ تین ججوں پر مشتمل پری ٹرائل پینل گزشتہ پانچ ماہ سے زائد عرصے سے ان پر غور کر رہا ہے۔ مئی 2024 کے اواخر میں ہی بین الاقوامی عدالت انصاف نے بھی اسرائیل کو رفح پر حملے سے ”فوری“ روکنے کا حکم بھی جاری کیا تھا۔
اس دوران غزہ میں جان بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 42 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہزاروں ملبے تلے دب چکے ہیں اور اندازہ ہے کہ ہزاروں لوگ غزہ میں پیدا کردہ حالات کی بدولت مر جائیں گے۔
آج ان دونوں عدالتوں کی تاریخ اور موجودہ نظام میں ان کے کردار پر نظر ڈالیں گے جس سے ہمیں اپنے سوال کا جواب تلاش کرنے میں مدد مل سکے گی۔
اگرچہ جنگی جرائم میں مقدمات کا خیال پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی زیر بحث آ چکا تھا لیکن کام دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی شروع ہوا جب فاتح اقوام نے نیورمبرگ اور ٹوکیو ملٹری عدالتوں کے قیام کے ذریعے جرمن اور جاپانی ملٹری اور سویلین لیڈروں پر مقدمات چلا کر سزائیں دیں۔ یاد رہے کہ فاتح اقوام میں سے کسی فرد پر بھی فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی۔ اس بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ جارحیت اور نسل کشی کے خلاف ایک علامتی کوشش تھی۔ ہاں 1948 میں نسل کشی کی روک تھام اور سزا پر پروٹوکول تو بنا لیا گیا تھا۔ تقریباً نصف صدی گزر گئی جس کے دوران لاکھوں افراد جنگوں یا آزادی کی جدوجہد میں نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اس کی تفصیل تو پھر کبھی بس اشارہ ہی کافی ہے مثلاً کینیا کی ماؤ ماؤ تحریک، الجزائر کی فرانس کے خلاف جنگ آزادی وغیرہ۔
یہ بیسویں صدی کا آخری عشرہ تھا جب سیکورٹی کونسل نے نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ کی خانہ جنگی اور روانڈا کی نسل کشی کے سلسلے میں دو ٹربیونل قائم کیے تاکہ افراد کے خلاف جنگی جرائم میں مقدمات چلائے جا سکیں۔ اگرچہ انہوں نے اپنا کام کیا لیکن ان کی آزادی اور غیرجانبداری پر سوال اٹھے کیونکہ جہاں سرب اور کروٹ لیڈروں کو تو جنگی جرائم کا سامنا کرنا پڑا لیکن یوگوسلاویہ کے خلاف ناٹو کی بمباری پر کوئی سوال نہ اٹھایا گیا۔ اسی طرح روانڈا میں کچھ لوگوں کو سزا بھی ملی لیکن اس نسل کشی میں یورپین اقوام کے کردار بالخصوص اس کی ممکنہ روک تھام کے سلسلے میں کوئی تحقیق نہ ہوئی کیونکہ 1948 کا پروٹوکول تو انہیں اقوام کا تیار کردہ تھا۔
اس پس منظر میں 1998 میں روم میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے قیام پر اتفاق رائے ہو گیا اور اس عدالت کا قیام 2002 میں ہو بھی گیا جس سے یہ امید بندھ گئی اب انسانیت کے خلاف، جنگی جرائم اور نسل کشی میں ملوث افراد کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے گا چاہے ان کا تعلق تنازعے میں شریک کسی پارٹی سے ہی ہو۔
جلد ہی واضح ہو گیا کہ یہ امیدیں ابھی قبل از وقت ہیں۔ پہلے تو روم کانفرنس میں دستخط کرنے والے چند ممالک نے اس کی توثیق سے ہی انکار کر دیا۔ ان میں تین اہم ممالک امریکہ، روس اور اسرائیل ہیں۔ آپ بات سمجھ رہے ہیں نہ۔ دوسرے یہ کہ اپنے قیام سے اب تک اس عدالت کی کارکردگی پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ پچاس سے ذرا کم افراد جن پر اب تک فرد جرم عائد کی گئی ان سب کا تعلق افریقی ممالک سے ہے جن میں کئی سربراہان مملکت بھی شامل ہیں۔ اس دوران افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کشی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مظالم کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ ان ممکنہ جرائم کے بارے میں سرکاری دستاویزات تو وکی لیکس نے بہت عرصہ پہلے جاری کر دی تھیں۔ ان حقائق نے اس تاثر کو اور تقویت پہنچائی کہ یہ عدالت درحقیقت موجودہ نظام کے باغیوں کو سزا دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
اس عدالت کی کارکردگی میں تیزی تو 2023 میں دیکھنے میں آئی جب پراسیکیوٹر کریم خان کی طرف سے روسی صدر کے خلاف وارنٹ گرفتاری کی درخواست کے صرف انتیس دن کے بعد ہی یہ وارنٹ جاری کر دیے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فروری 2022 سے جاری یوکرائن روس جنگ کے ایک سال بعد روسی صدر پر ”انفرادی حیثیت“ سے الزام عائد کیا گیا کہ اس نے اپنے قبضے میں یوکرائن کی آبادیوں ( بشمول بچوں ) کے جبری ٹرانسفر کا بندوبست کیا۔ ایک آئیڈیل دنیا میں سیکورٹی کونسل کے مستقل رکن کے صدر کے خلاف جاری ہونے والا یہ وارنٹ عدالت کے آزاد ہونے کا کھلا ثبوت پیش کرتا لیکن کیا کیا جائے کہ روس اور مغرب کے درمیان جاری کشمکش کے تناظر میں کچھ لوگوں کے نزدیک انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کا یہ فیصلہ اپنے مغربی مدد گاروں کے اثر و رسوخ کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔
مندجہ بالا تاثر کی مکمل نفی ہو جاتی اگر یہ عدالت 21 مئی کو دی جانے والی اپنے پراسیکیوٹر کی درخواست وارنٹ گرفتاری کو سرد خانے میں نہ ڈال دیتی۔ حالانکہ اس سلسلے میں نہ صرف اقوام متحدہ کے اپنے شواہد ہی سر چڑھ کر بول رہے ہیں بلکہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس بھی اپنی ابتدائی رائے دینے کے بعد سونے جا چکی ہے۔ میری مراد جنوبی افریقہ کی اس عدالت میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مقدمہ ہے۔ اب ذرا اس عدالت میں فلسطین کے بارے میں جدوجہد کی کچھ تفصیل۔
کریم خان کی یہ درخواست کوئی نئی نہیں۔ جنوری 2015 میں شروع ہونے والے عمل کے نتیجے میں ریاست فلسطین نے یکم اپریل کو انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے اس کے چارٹر کو تسلیم کر لیا۔ اس طرح فلسطینیوں کو امید بندھ گئی کہ وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف عدالت جا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ جون 2014 میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد ہی اس وقت کی پراسیکیوٹر بینسعودہ (Fatou Bensouda) نے ابتدائی تحقیقات شروع کر دی تھیں۔ اگرچہ اس وقت آزادی اور غیر جانبداری کے دعوے بھی کیے گئے۔ بالآخر دسمبر 2019 میں بنسعودہ نے اعلان کیا کہ ابتدائی تحقیقات میں دونوں فریقین کے خلاف اتنے شواہد ملے ہیں، کہ باقاعدہ تحقیقی پروگرام شروع کیا جا سکتا ہے۔
برطانوی اخبار گارڈین میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس اعلان کے بعد اسرائیلی انٹیلی جنس ایجینسی موساد کی طرف سے پراسیکیوٹر کو دھمکانے اور ان پر دباؤ کے اشارے ملے۔ امریکی حکام نے بھی آئی سی سی کے حکام پر پابندیوں کی دھمکی دینا شروع کر دی۔ بالآخر بنسعودہ فروری 2021 میں پراسیکیوٹر کے عہدے سے ہٹ گئیں اور پاکستانی نژاد برطانوی بیرسٹر کریم خان نے پراسیکیوٹر کی ذمہ داراں سنبھال لیں۔ اپریل 2021 میں امریکہ نے بنسعودہ پر عائد پابندیاں اٹھا لیں۔ لیکن یہ بھی واضح کیا کہ امریکہ آئی سی سی کے فلسطین کے بارے میں اقدامات سے اختلاف رکھتا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین میں جنگی جرائم کے بارے میں آئی سی سی کی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرتا اور ابھی اپریل 2024 میں اس نے ”آزاد دنیا کے لیڈروں“ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس عدالت سے اسرائیلی حکام کے خلاف ممکنہ طور پر جاری ہونے والے وارنٹ کی مخالفت کریں۔
یہ ہے وہ تحقیقی عمل جو 2021 میں شروع ہوا اور 21 مئی 2024 کو کریم خان کی طرف سے نیتن یاہو اور وزیر دفاع جاؤ گلانٹ کے ساتھ ساتھ تین فلسطینی لیڈروں یحییٰ سنوار، محمد ضعیف ابراہیم المراسی اور اسماعیل ہنیہ کے خلاف وارنٹ گرفتاری کی درخواست پر منتج ہوا۔
تینوں فلسطینی راہنما اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں اور اگر ہم مغربی انصاف کے معیار سے دیکھیں تو انصاف تو ہو ہی چکا ہے۔ اب درخواست کو مستقبل قریب میں آپ سرد خانے میں ہی پائیں گے اس سلسلے میں مین سٹریم میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی توجہ کسی اور طرف مبذول کروا دے اور یہ کام وہ بخوبی سر انجام دے رہا ہے۔
Author: ڈاکٹر افتخار احمد، برطانیہ
Reference Link:- https://www.humsub.com.pk/568177/dr-iftikhar-ahmad-36/