جب آپ یہ بلاگ پڑھ رہے ہوں تو عین ممکن ہے کہ غزہ میں پندرہ ماہ سے جاری آگ اور خون کی بارش تھم چکی ہو کیونکہ جنگ بندی کا معاہدہ دونوں فریقوں نے منظور کر لیا ہے۔ یہ حقیقت نہیں بھولنا چاہیے کہ رپورٹ کے مطابق یہ وہی معاہدہ ہے جو مئی/جون 2024 میں امریکی صدر جو بائیڈن نے پیش کیا تھا لیکن اسرائیل کو منوانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جون سے لے کر آج تک آٹھ ماہ میں دس ہزار سے زائد افراد یعنی فلسطینی مارے جا چکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق معاہدے کی صرف ایک بڑی وجہ نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کا دباؤ ہے جس نے اسرائیلی نہ کو ہاں میں تبدیل کیا تاکہ بیس جنوری 2025 کو ان کی حلف برداری کی تقریب میں وہ اپنے اس وعدے کو پورا کرنے کا دعویٰ کر سکیں کہ یہ جنگ ایک دن میں بند ہو جائے گی۔
Ramazan gift ideas
آج کی نشست میں ایسے معاہدوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ جنگ بندی کے اس معاہدے کو اچھی طرح سمجھا جا سکے۔ اسرائیل امن امن کے اس کھیل میں بہت مہارت اختیار کر چکا ہے۔ وہ جنگ بندی کی ابتدائی شرائط پر تو خاموش رہتا ہے جس میں اس کا فائدہ ہو لیکن کیا امن کی فضا مکمل طور پر بحال ہو جائے گی، اس بارے میں اس کے رویے کی تاریخ کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔ موجودہ معاہدے کا پہلا مرحلہ تو چھ ہفتوں کے لیے ہے جس میں قیدیوں کا تبادلہ اور اسرائیلی افواج کا آبادیوں سے انخلاء شامل ہے۔ دوسرے مرحلے کا آغاز جنگ بندی کے سولہویں دن شروع ہو گا جس میں باقی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور مصری سرحد رفح کے علاقے سے اسرائیلی فوج کا انخلاء اور تیسرے مرحلے کی تفصیلات یعنی مستقل امن بارے بات چیت کا شروع ہونا ہے۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اسرائیلی افواج کی فلسطینی نسل کشی کا عمل دوبارہ شروع نہ ہو جائے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو تو پہلے ہی فوجی کارروائی کے استعمال کی بات کر چکا ہے۔
جہاں حماس مستقل جنگ بندی پر زور دیتا آیا وہیں اسرائیل حماس کے وجود کو ختم کرنے کی اپنی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹا۔ غزہ میں کس کی حکومت ہو، یہ بھی طے نہیں ہوا اور اقوام متحدہ کے امدادی کام کے ادارے کے کردار پر بھی کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے پر پابندی لگا چکی ہے۔ علاوہ ازیں اس معاہدے میں غزہ، جو ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، کی تعمیر نو یا ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے بارے میں بھی مکمل خاموشی ہے۔
چلیے اس تنازعے کی گزشتہ پچاس سالہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں کہ مستقبل کے انسانی رویوں کے بارے میں اندازوں کے لیے سب سے قابل اعتماد عنصر ان کا ماضی ہی ہوتا ہے۔ 1979 میں مصر کے انوار سادات اور اسرائیلی بیگن کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کی شمولیت کے بغیر کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے اگلے مراحل جن میں فلسطینی آزادی کا سوال، پانچ سال میں مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی حق خود ارادی کا تسلیم کیا جانا اور مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی آبادکاری کے عمل کو روکنا تھا۔ اسرائیل نے ان شرائط پر کبھی عمل نہیں کیا۔
سنہ 1993 میں اوسلو معاہدے میں پی ایل او اور اسرائیل نے ایک دوسرے کو تسلیم کر لیا لیکن 1995 میں اس معاہدے کی تفصیل یعنی آزاد فلسطینی ریاست کا قیام کبھی بھی پورا نہ ہو سکا۔ اس معاہدے میں ”یہودی آبادکاری“ سے متعلق بحث کو آخری مراحل سے جوڑ دیا گیا کہ جب مغربی کنارے سے اسرائیلی فوج کا انخلاء مکمل ہونا تھا۔ نظام حکومت ایک وقتی فلسطینی اتھارٹی کے سپرد ہونا تھا۔ اس معاہدے میں 1948 میں اپنے گھر چھوڑنے والے فلسطینوں کے حق واپسی کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا اور اس طرح اسرائیل فلسطینوں میں تقسیم ڈالنے میں کامیاب رہا۔ اس معاہدے میں مغربی کنارے کو تین طرح کے علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔ اے اور بی کیٹیگری تو فلسطینی اتھارٹی کو کچھ بلدیاتی اختیار کے ساتھ دے دی گئی لیکن 60 فیصد پر مشتمل سی کیٹیگری کا علاقہ اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہی رہا۔ فلسطینی مفکر ایڈورڈ سعید نے اس معاہدے کو ”فلسطینی ہار“ سے تشبیہ دی۔ آج تک مغربی کنارے سے اسرائیلی فوج کا انخلاء نہ ہو سکا۔ یہودی آباد کاروں کی تعداد جو اوسلو معاہدے کے وقت تقریباً ڈھائی لاکھ تھی اب بڑھ کر تقریباً سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ اوسلو معاہدہ نے درحقیقت یاسر عرفات اور پی ایل او کو فریب اور مکر کے ایک ایسے جال میں پھنسا دیا جس سے اس کی ایک تہائی سے زیادہ عرصے پر محیط جدوجہد آزادی کینسل ہو گئی اور ایک خودمختار ریاست تو اب ایک خواب ہی لگتا ہے۔
گزشتہ بیس سالوں میں اگر چہ اسرائیلی فوج غزہ سے نکل آئی لیکن غزہ کو ایک جیل میں تبدیل کر دیا گیا جہاں سے نکلنا اور داخل ہونا مکمل طور پر اسرائیل اور مصر کے قبضے میں چلا گیا۔ اس دوران باقاعدگی سے اسرائیل فضائی حملوں سے غزہ میں تباہی مچاتا رہا ہے اور اپنے اس عمل کو ”لان میں گھاس کی کٹائی“ قرار دیتا آیا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر 2004 میں دو مرتبہ، 2006 میں دو مرتبہ اور 2008۔ 2009 میں حملہ جو فضائی اور زمینی افواج سے تین ہفتوں سے زائد جاری رہا جس کے دوران ایک ہزار ٹن بارود غزہ پر گرایا گیا، تقریباً 1400 افراد مارے گئے۔ حملے کے لیے حماس پر الزامات لگائے گئے جبکہ اسرائیلی رپورٹوں کے مطابق یہ کام اسرائیل نے خود کیا۔ 2012 اور پھر 2014 کے حملوں میں بائیس سو سے زائد افراد مارے گئے۔ پھر کچھ عرصہ بظاہر امن رہا کہ جیل میں سختیاں بہت بڑھا دی گئیں۔ 2018 میں غزہ والوں نے ”واپسی کے مارچ“ کے نام سے نہتے غزہ کے بارڈر کی طرف مارچ کیا اور ڈھائی سو سے زائد نہتے افراد کو سیدھے سیدھے گولی مار دی گئی۔
ظلم اور انسانی تکلیف کی یہ داستان ابھی ادھوری ہے کیونکہ اسرائیلی مقصد، فلسطینوں کا مکمل خاتمہ ابھی پورا نہیں ہوا۔ موجودہ جنگ بندی اسی ادھوری داستان کا ایک باب ہے۔ مکمل امن کب ہو گا اس بارے میں ابھی کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی لیکن غزہ کے زیر عتاب لوگوں کے لیے بمباری میں یہ وقفہ ہی غنیمت ہے
Reference Link:- https://www.humsub.com.pk/577663/dr-iftikhar-ahmad-39/