سقوط دمشق کے ساتھ ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد اور اسرائیل کے قیام کے ساتھ ابھرنے ہونے والی عرب قوم پرستی کی لہر اب دم توڑ چکی ہے۔ اس لہر کے سرخیل مصر کے جمال ناصر اور پھر عرب بعث پارٹی تھے۔ اپنے عروج کے دور میں اس لہر نے تقریباً ساری عرب دنیا کو (کم از کم عوامی سطح پر) اپنی سحر میں جکڑ رکھا تھا۔ عرب قوم پرستی کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مصر اور شام نے اتحاد سے ”متحدہ جمہوریہ عرب“ کے نام سے نیا ملک بھی تشکیل دیا لیکن یہ اتحاد صرف تین سال چل سکا۔

مصر میں اس کا سحر 1967 کی جنگ میں عبرتناک شکست نے توڑ دیا اور صرف 12 سال بعد انور سادات نے 1979 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے کیونکہ 1973 کی جنگ میں انوار سادات نے سمجھ لیا تھا کہ اسرائیل سے جنگ کا مطلب امریکہ سے لڑائی ہے جو وہ جیت نہیں سکتا تھا (تفصیل کے لیے محمد حسین ہیکل کی کتاب ”Autumn of Fury“ دیکھیے ) ۔ عرب قوم پرستی کی قیادت مصر سے عرب بعث پارٹی کو منتقل ہو گئی جس نے شام اور عراق میں ایک سیکولر حکومت قائم کر لی تھی۔

اسی طرح لیبیا بھی اسی لہر کا حصہ بن گیا۔ یاد رہے کہ ان تمام ممالک میں اقتدار کے پس منظر میں فوج موجود تھی جبکہ ظاہراً شخصی آمریت قائم تھی۔ انسانی حقوق کے حوالے سے یہ ملک دور سے عرب ممالک سے کوئی زیادہ مختلف نہیں تھے لیکن مذہبی آزادی، باہمی مساوات اور برداشت کو قانونی شکل حاصل تھی۔ ان میں ایک مشترکہ خصوصیت اسرائیل کے خلاف سرکاری پالیسی تھی۔ 2003 میں عراقی شکست کے بعد وہ عمل شروع ہوا جس کے دوران لیبیا اور سوڈان میں خانہ جنگی اور پھر مرکزی حکومتوں کا خاتمہ تھا۔

اس دوران فلسطینی کشمکش سلگتی رہی یہاں تک کہ سات اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے سے اس عمل کے اگلے مرحلے آغاز ہوا۔ تمام دنیا کے شور و غوغے کے باوجود غزہ میں فلسطینی نسل کشی جاری رہی اور مزاحمتی کرداروں سے نبٹنے کے لیے لبنان کی حزب اللہ کی قیادت اور فوجی طاقت کو تہس نہس کر دیا گیا۔ شام میں خانہ جنگی 2011 میں شروع ہو گئی جس کے دوران تقریباً چھ لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، پچاس لاکھ ملک بدر ہو گئے، اس کے ساتھ ساتھ شام پر امریکہ اور یورپ کی اقتصادی پابندیوں نے ملک کو اندر سے تقریباً کھوکھلا کر دیا۔

عراقی میں قائم ہونے والی داعش نے رقہ میں اپنا دارالحکومت قائم کر لیا۔ جی ہاں وہی داعش جس کے سربراہ کے نائب کا نام ابو محمد الجولانی تھا اور جس کے سر پر سی آئی اے نے 2013 میں ایک کروڑ ڈالر قیمت مقرر کی تھی۔ لبنان میں حزب اللہ کی تباہی اور حلیفوں کی غیر موجودگی میں بشارالاسد کے لیے مزاحمت اب ممکن نہیں تھی اور یوں اس کے جانے کے بعد عرب قوم پرستی کا یہ باب ختم ہوا۔

اب موجودہ صورت حال کی طرف آتے ہیں اور آنے والے دنوں کی ابھرتی ہوئی تصویر کے خد و خال واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر ہم شام کے نقشے پر غور کریں تو بہت سی قوتیں اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار حیثیت میں موجود نظر آتی ہیں۔ ان میں ترکی، امریکہ ایران اور روس شامل ہیں۔ حالیہ تبدیلی کے متحرک کرداروں میں ترکی، اسرائیل اور امریکہ کے مشترکہ حمایت یافتہ حیات التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) اور امریکی حمایت یافتہ کردوں کی راہنمائی میں فری سیرین آرمی (ایس ڈی ایف) شامل ہیں۔ اس تناظر میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ کیا دمشق کے نئے حکمران آنے والے دنوں میں شام میں موجود ان مختلف قوتوں پر حاوی ہو سکتے ہیں یا ان کے مربیوں کے ساتھ ایک ایسے نظام کو تشکیل دیے سکتے ہیں کہ بظاہر شام کی موجود تشخیص قائم رہے سکے۔

لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ایچ ٹی ایس اور اس کے راہنما ابو محمد الجولانی کی ایک مثبت شناخت قائم کی جائے۔ وہ دن چلے گئے جب اس جیسوں کی منزل مالٹائی رنگ کے سوٹ میں ملبوس کسی ٹارچر سیل ہوتی تھی، اب ان کے ڈارلنگ بننے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے تو تمام میڈیا میں اس کے نام کی تبدیلی ہے اور اسے اب احمد الشارح کے نام سے پکارا جاتا ہے اور چند دنوں میں ہی لوگ اس کی اصلیت کو بھول جائیں گے۔ اس کے سر پر قائم ایک کروڑ ڈالر کی قیمت اب سی آئی اے کی طرف سے منسوخ کر دی گئی ہے اور آنے والے دنوں میں ایچ ٹی ایس کو بھی دہشت گردی کی فہرست سے نکال کر قبولیت کا شرف بخشا جائے گا۔

اندازہ ہے کہ اس سارے عمل کو تیز رفتاری سے مکمل کیا جائے کا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ایچ ٹی ایس شام کی سربراہی کے لیے کون سا راستہ منتخب کرتی ہے۔ آپ کو یاد ہی ہو گا کہ آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے ”مجاہد“ راتوں رات دہشت گرد بن سکتے ہیں اور ان کی کایا کلپ ہونے میں بھی دیر نہیں لگتی کیونکہ دلہن وہی جسے پیا من چاہے۔

شام بحیثیت ایک خود مختار ملک اپنا وجود کھو چکا ہے۔ نئی حقائق اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ 1974 میں شام اور اسرائیل کے درمیان طے شدہ معاہدے کو اسرائیل نے منسوخ کرتے ہوئے جولان میں اپنے زیر قبضہ علاقے سے آگے بڑھ کر شامی علاقے میں اپنی فوج داخل کر دی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شام دفاعی شناخت کی حامل ہر تنصیب اور ہتھیار کو تباہ کر دیا ہے۔ بشارالاسد کے دور میں شام پر اسرائیلی حملوں کی توجیہہ ایران سے حزب اللہ کو ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا بیان کیا جاتا تھا۔

ان دنوں میں ہونے والی بمباری کی شدت کا اندازہ اس ایک مثال سے کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ہفتے طرطوس (جہاں روس کی تنصیبات بھی موجود ہیں ) پر گرائے جانے والے بموں کے دھماکوں کی شدت ریکٹر سکیل ( زلزلے کی شدت کا ماپنے کا آلہ) پر 3.5 ریکارڈ کی گئی۔ اور تاریخ میں پہلی بار اسرائیلی سرحدیں براہ راست ترکی سے جا ملی ہیں۔ جہاں دمشق کے نئے حکمرانوں نے شام کو ایران اور حزب اللہ کے اثرات سے پاک کرنے کا اعلان کیا ہے وہیں ان کی طرف سے ان اسرائیلی حملوں کے خلاف خاموشی بڑی بامعنی ہے۔

امریکہ، ترکی اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ دوسرے عرب ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نیم جاں ریاست میں در آئیں گے۔ ترکی ہر قیمت پر ایک کرد ریاست کے قیام کی مخالفت کرے گا اور اس کے لیے وہ کسی حد تک بھی جانے کے لیے تیار ہو گا۔ اور کسی کے لیے بھی شام (بطور ریاست) کے مفادات اہم نہیں ہوں گے۔ ان حالات میں اسرائیل کا سارا زور مختلف قوتوں میں موجود مذہبی اور دوسرے اختلافات کو ایک خاص سطح سے کم نہ ہونے دینا ہے تاکہ مرکز کو کمزور رکھا جائے اور اس کی یہ پالیسی بہت پرانی ہے جس کے تحت امریکی اور اسرائیلی کی سرداری کو تسلیم نہ کرنے والے عرب ممالک کی اندرونی تقسیم ہے۔ امریکی جریدے فارن پالیسی میں 2018 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2013 سے اسرائیل ایک پروگرام کے تحت شام میں متحرک 12 مختلف گروہوں کی مالی امداد جاری رکھے ہوئے تھا۔

اس سارے پس منظر میں شام کے لیے بطور ریاست کوئی زیادہ چوائس موجود نہیں ہے۔ اس کے سامنے یا تو مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کا ماڈل ہے یا غزہ میں حماس کا۔ کوئی تیسرا متبادل مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔

اسرائیل کی ترجیح تو غزہ کا ماڈل ہو گا جبکہ امریکی اور یورپی نظر میں مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی قابل عمل ہے اور اسی لیے الحیات التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) اور دوسری جنگجو گروہوں اور ان کے لیڈروں کی بحالی کا کام زور و شور سے شروع ہے اور جلد پایہ تکمیل تک پہنچنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

غزہ کا ماڈل اپنایا گیا تو اسرائیل شام میں اپنی بمباری وغیرہ جاری رکھے گا تاکہ کوئی بھی گروہ اتنی طاقت حاصل نہ کر سکے جو ایک مضبوط مرکز کی لیے ضروری ہے۔ ایک مرکزی اتھارٹی کی غیر موجودگی میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر ملک کی تقسیم ہونا ممکن ہے جہاں بہت سی ملیشیا اور طاقت ور لوگ اپنے اپنے تسلط کے لیے باہمی جھگڑوں میں مصروف رہیں گے ناکہ بیرونی دشمنوں مثلاً اسرائیل کی طرف توجہ ہو۔ اگر آپ کو اس ماڈل میں کوئی شک ہو تو صدام کے بعد پندرہ سال تک کا عراق یا آج کا لیبیا جہاں ملک چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے۔

دوسرا ماڈل میں شام میں نظام حکومت، مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کا ایک بڑا عکس ہو گا۔ اس کے تحت ابو محمد الجولانی اور دوسرے مجاہدین کو امریکہ کو اپنی وفا داری اور اسرائیل کے سامنے سر جھکائے رکھنے کی یقین دھانی کروانی ہو گی جو کہ وہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ان کی حکمرانی کا ماڈل محمود عباس کی سربراہی میں مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی سے زیادہ نہیں ہے۔ محمود عباس کے پاس کسی بھی مقامی بلدیاتی ادارے سے زیادہ اختیار نہیں ہیں جن میں مقامی سکولوں کی دیکھ بھال اور کوڑے کچرے کی صفائی وغیرہ شامل ہیں۔

ہاں ان کو پروٹوکول کسی ریاست کے سربراہ ہی کا ملتا ہے لیکن اس تنخواہ کے بدلے ایک بہت اہم ذمہ داری کو نبھانا پڑتا ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے ہلکے ہتھیاروں سے آراستہ ایک سکیورٹی فورس کا قیام ہے جس کا کام اپنے علاقوں میں امن وامان اور عوام کو اس سطح پر رکھنا کہ وہ اسرائیلی قبضے کو چیلنج نہ کر سکیں۔ ہم بر صغیر میں رہنے والوں کو تو یہ ماڈل یاد ہونا چاہیے جس کے تحت انگریز راج میں ہندوستان میں تقریباً پانچ سو سے زائد ریاستیں موجود رہیں جن میں مقامی حکمران اپنی مرضی کرنے میں آزاد تھے شرط صرف یہ تھی کہ انگریز بہادر کی حکمرانی کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھے۔ واپس مغربی کنارے کی طرف آتے ہیں جہاں فلسطینی اتھارٹی صدر محمود عباس کی زیر نگرانی بخوبی یہ کام سرانجام دے رہی ہے۔ اگر آپ کو اس میں کوئی شک ہو تو گزشتہ ہفتے جنین کے کیمپ میں ہونے والی کارروائی پر نظر دوڑا لیں۔

ابو محمد الجولانی بمشہور احمد الشارح کی بطور سکیورٹی کانٹریکٹر پرورش کی جا سکتی ہے۔ طویل خانہ جنگی اور حالیہ اسرائیلی بمباری یہ بات یقینی بنا دی ہے کہ ریاست شام کے پاس کوئی بری فوج، بحری فوج یا فضائیہ اب موجود نہیں ہیں۔ صرف ہلکے ہتھیاروں سے لیس مختلف گروہ رہ گئے ہیں جن کی نگرانی اب کوئی اتنا مشکل نہیں رہی۔ ایچ ٹی ایس کے پاس حسب ضرورت طاقت ہی رہنے دی جائے گی تاکہ وہ دوسرے گروہوں کو کنٹرول کر سکے اور اسرائیلی مفادات کی حفاظت کر سکے جن میں اہم ایران اور حزب اللہ کو شام سے باہر رکھنا شام ہے۔

اس کے علاوہ اہم ذمہ داریوں میں شام میں موجود بڑی تعداد میں موجود فلسطینوں پر کنٹرول بھی شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات الجولانی کو نہیں بھولنا ہو گا کہ جغرافیائی سطح پر اس کے دائرہ اختیار کا تعین بھی اسرائیل اور دوسرے ہی کریں گے بالکل اسی طرح جیسے مغربی کنارے میں محمود عباس کی نظروں کے سامنے آباد کار مقامی فلسطینوں کو بیدخل کر سکتے ہیں۔

اور ہاں شامی پس منظر میں اس سے مراد وہ شمال مشرقی حصہ بھی ہو سکتا ہے جہاں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن کا امریکی اور ترکی کے زیر تسلط رہنے کا زیادہ امکان ہے اور جولان کی پہاڑیوں اور اس کے ساتھ کا بڑے علاقہ جہاں تک اب اسرائیل نے اپنی سرحدیں بڑھا لی ہیں، بھی الجولانی کی ذمہ داریوں سے باہر ہی تصور ہو گا۔ کیا قسمت کے کھیل ہیں کہ تیرہ سال تک مرکزی حکومت کے خلاف جہاد کرنے والا ابو محمد اب اپنے آبائی وطن جولان سے بیدخل سمجھا جائے گا۔

لکھا تو اور بہت کچھ جا سکتا ہے لیکن آج کے لیے اتنا ہی کہ اب میڈیا میں راوی چین ہی لکھتا ہے۔

Reference Link:- https://www.humsub.com.pk/574903/dr-iftikhar-ahmad-38/

By admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *