بالآخر شام کا بشارالاسد بھی کاغذی شیر ہی ثابت ہوا اور پچاس سال تک اسرائیل کے سامنے مزاحمتی کردار ادا کرنے کے بعد شامی بعث پارٹی بھی عراقی بعث پارٹی کی طرح خاک بسر تو ہوئی لیکن اپنے پیچھے انسانی ظلم اور درد کی ایسی تصویر چھوڑ گئی جو رات دن ٹی وی سکرین پر دکھائی جا رہی ہے۔ 9 دسمبر سے اب تک ساری کی ساری شامی فوجی طاقت ملیا میٹ کر دی گئی ہے۔ دمشق کے نئے حکمران شامی فوج اور دوسرے دفاعی اداروں کو ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ شامی آزاد ہو چکے ہیں۔

یہ سب مناظر اور بیانیہ نیا نہیں اور سنہ 04۔ 2003 کی یاد دلاتا ہے جب عراق میں صدام حسین اور بعث پارٹی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایسی ہی تصویر سامنے آئی تھی۔ فرق یہ ہے کہ صدام ایک زیر زمین بنکر میں چھپا رہا جہاں سے اس کو ڈھونڈ کر پھانسی کے تختے پر کھڑا کیا گیا۔ بشار الاسد اس وقت اپنی فیملی کے ساتھ ماسکو میں رہائش پذیر ہے۔

ایسے ہی مناظر 2011 میں لیبیا میں دیکھنے میں آئے جہاں بیالیس سال کی حکمرانی کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی میں معمر قذافی کو اپنی محفوظ پناہ گاہ سے بھاگنا پڑا لیکن آخر باغیوں کے ہاتھوں پکڑا گیا اور تشدد کے بعد مارا گیا۔ آج لیبیا پر مختلف جتھے اپنے اپنے مربیوں کے زیر سایہ حکومت کر رہے ہیں۔

عراق میں سنہ 2003 میں ملنے والی آزادی کے نتیجے میں ایک ایسی جہنم کے دروازے کھل گئے جس نے لاکھوں لوگوں کو نگل لیا، القاعدہ کی نئی نسل داعش نے اپنی نام نہاد اسلامی حکومت کے ذریعے انسانی دکھ اور ابتلاء کی وہ مثال قائم کی کہ چنگیز خان اور ہلاکو بھی اپنی قبروں میں شرمائیں۔ ایک وقت میں عراق کا چالیس فیصد اور شام کا تیس فیصد علاقہ اس کے زیر تسلط تھا۔ شام کا شمالی شہر رقہ اس کا دارالحکومت تھا۔ 2011 میں شروع ہونے والی شامی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ شام میں داخل ہوئی۔ اگرچہ عراقی فوج اور امریکہ کی جنگی کارروائی کے نتیجے میں عراق میں تو اس کا بظاہر خاتمہ ہو چکا لیکن شام میں اس کا اثر قائم رہا۔ اسی دوران اس ذہنیت کا بیانیہ دوسرے ملکوں میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا۔ جن میں افغانستان، لیبیا اور افریقی ساحل کے ممالک شامل ہیں۔ اس گروپ نے بہت سے ممالک بشمول مغربی ممالک میں اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں میں معصوم انسانوں کو نشانہ بنایا اور وطن عزیز بھی ان سے محفوظ نہ رہا۔ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے سکول میں سیکڑوں طلبا کا بہیمانہ قتل اسی ذہنیت کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ اسی دوران شام میں شروع خانہ جنگی میں النصرہ نامی تنظیم کا نام سامنے آتا ہے جو اسی داعش کی ایک شاخ تھی اور شامی حکومت کے خلاف ”جہاد“ میں مصروف عمل تھی۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی واپس آج کے مشرق وسطیٰ میں آتے ہیں۔

شام میں ہونے والی تبدیلی کے پیچھے ”الحیاۃ التحریر الشام“ نامی تنظیم سامنے آئی ہے جو کہ شام میں القاعدہ کی ایک شاخ ”النصرہ فرنٹ“ کا نیا چہرہ ہے۔ یاد رہے کہ جہادی تنظیموں اور شامی حکومت کے درمیان چند سال سے بظاہر ایک امن سا قائم تھا جس میں طرفین اپنی اپنی حدود میں مواقع کے انتظار میں تھے۔ لبنان میں حالیہ اسرائیلی جارحیت اور حزب اللہ کی بربادی نے وہ موقع فراہم کر دیا اور اپنے حلیفوں کی مدد کی غیر موجودگی میں شامی ریاست ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گئی۔ یاد رہے کہ الحیاۃ التحریر الشام یعنی HTS آج بھی امریکہ، یورپ اور اقوام متحدہ میں ”دہشت گرد“ گردانی جاتی ہے اور سی آئی اے کی طرف سے اس کے سربراہ ابو محمد الجولانی کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر آج بھی لاگو ہے۔ لیکن بی بی سی اور تمام دوسرا مغربی میڈیا اپنے جوش میں ”دہشت گرد“ کی اس حقیقت کو بیان کرنا بھول جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ وہ سارے مغربی سیاست دان اور میڈیا پنڈت جو HTS کے ہاتھوں شام کی آزادی کو خوشیاں منا رہے ہیں، وہی ہیں جو ابھی بھی حماس جیسی ”دہشت گرد“ تنظیم کے خاتمے کے لیے غزہ میں بیس لاکھ سے زائد فلسطینیوں پر بمباری اور انہیں بھوک سے مارنے کو جائز سمجھتے ہیں۔

اس صورت حال میں چند سوال ہیں جن پر ہر ذی شعور کو غور و خوض کرنا ہو گا۔

کیا حالیہ سالوں میں النصرہ فرنٹ اور دوسری جہادی تنظیموں کے جنگجو علاج معالجے کے لیے اسرائیلی فیلڈ ہسپتال استعمال نہیں کرتے رہے جب گولان پہاڑیوں پر شامی اسرائیلی سرحد ان کے کنٹرول میں تھی؟

کل تک عراق و شام میں سروں کے مینار بنانے، عورتوں کو ڈھور ڈنگر سمجھنے اور انسانی زندگی کی تحقیر کرنے والے دہشت گرد آج شام میں معتدل مزاج، آزادی دلانے والے اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے والے کیسے گردانے جا سکتے ہیں؟

آج جو ہم میڈیا پر دیکھ رہے ہیں اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنی منصوبہ بندی کے تحت ایک خاص تصویر اجاگر کی جا رہی ہے؟

ہم کیسے یقین کر لیں کہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری اسرائیلی نسل کشی ( جی ہاں اب تو عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ نے بھی تصدیق کر دی ہے ) کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کے خلاف مغربی امداد دراصل حق پر ہے؟

کیا الحیاۃ التحریر الشام یعنی HTS واقعی شامی عوام کو آزادی دلا رہی ہے یا نئے بندوبست کے ساتھ موجودہ نظام کا تسلسل ہی ہے؟

Reference Link:- https://www.humsub.com.pk/573485/dr-iftikhar-ahmad-37/

By admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *