آج جب کے غزہ پر جاری جارحیت کو تقریباً ایک سال ہونے کو ہے اور اس دوران غزہ عملاً ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے، مرنے والوں کی تعداد اکتالیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، یاد رہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو گنتی میں آ گئے ورنہ محتاط اندازوں کے مطابق اتنی تعداد میں لوگ ملبے میں دب چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد لاکھ کا ہندسہ کب پھلانگ چکی۔ میڈیا میں اب غزہ کی خبریں شہ سرخیوں سے ہٹ کر تفصیلات میں جا چکیں اور گزشتہ چند دنوں سے میڈیا، ٹی وی کیمرے شمال میں لبنان میں منتقل ہو چکے ہیں اور پہلے چوبیس گھنٹوں میں اسرائیلی بمباری سے پانچ سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں اور عالمی میڈیا اور سفارتکاروں کی ہاہاکاریوں کا شور گونج رہا ہے۔

اس تناظر میں آج ہم اس ایک سالہ جنگ کے اسرائیل پر اثرات کا جائزہ لیں گے۔ روایتی طور پر اسرائیل کا جنگی طریقہ شدید لیکن مختصر جنگ کا ہے جس میں وہ اپنی پوری طاقت سے جدید ہتھیاروں سے مخالف کو ڈھیر کر کے ہاتھ جھاڑ کے امن کے گیت الاپنے لگتا ہے۔ یہ حملے یا جنگیں چند دن سے چند ہفتوں تک ہی محدود ہوتے ہیں۔ 1967 ہو یا 1973 کی جنگ، عراقی ایٹمی تنصیبات ہوں یا غزہ پر حملے سب تھوڑی مدت میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

ہاں لبنان میں اس کا تجربہ اتنا کامیاب نہیں رہا جہاں مقامی لوگوں کی جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر اس کو 2006 میں نکل کر اپنی سرحدوں میں واپس آنا پڑا اور حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکامی اس کا مقدر رہی۔ لیکن فلسطینیوں کے خلاف یک طرفہ جنگ میں وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکا۔ ملبے کا ڈھیر بننے کے باوجود حماس سے اپنے شہریوں کو نہیں چھڑا سکا اور ابھی بھی سو سے زائد شہری غزہ میں حماس کے کنٹرول میں ہیں۔ اس دوران اسرائیلی سوسائٹی پر معاشی، سفارتی اثرات کے ساتھ ساتھ اس کی بقا پر بھی سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔

اسرائیل اپنے آپ کو یہودیوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کا درجہ دیتا ہے جہاں دنیا کے کسی حصے سے بھی یہودی جا کر آباد ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل کے قیام سے پہلے تقریباً ہر عرب ملک میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد صدیوں سے آباد تھی اور مقامی آبادیوں کی حصہ تھی۔ یہود دشمنی (antisemitism) نامی یورپین بیماری سے یہ معاشرے نابلد تھے۔ صیہونی تحریک نے ایک پلان کے تحت ان تمام ممالک سے یہودیوں کے اسرائیل منتقل کیا۔ آپ نے گزشتہ جمعہ کو اقوام متحدہ میں اسرائیلی وزیر اعظم کی تقریر بھی سن لی ہو گی جس میں اس نے تمام بین الاقوامی برادر سے نفرت اور امریکہ پر غصے کا اظہار کیا کہ ہم سب ”یہود دشمن“ ہیں۔

اور تقریر کے آخر میں روسٹرم پر مکہ مارے ہوئے اعلان کیا کہ ”ہم جنگ جیت رہے ہیں“ ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک فریق جیت رہا ہو تو اسے بتانے کی ضرورت کیا ہے؟ ایسے دعوے تو اس وقت ہوتے ہیں جب اپنے دل میں بھی شک کا ناگ سر اٹھانا شروع کر دے۔ اسی تقریر کے دوران اسرائیلی بمبار طیاروں نے 2000 کلوگرام کیے اسی امریکی بموں کی بارش جنوبی بیروت کی گنجان آباد علاقے پر کر دی جس میں حزب اللہ کے جنرل سیکٹری حسن نصراللہ شہید ہو گئے۔ ان کی وفات کے اثرات کا جائزہ پھر کبھی۔ آج ہم اسرائیلی سوسائٹی پر اس جنگ کے مرتب ہونے والے اثرات پر بات کرنا ہے۔

تو سب سے پہلے معاشی اثرات کہ جب نائنٹین یاہو اقوام متحدہ میں اپنے دل کا غبار نکال رہا تھا تو اسی دوران بین الاقوامی قرضوں بارے ملکوں کی صلاحیتوں کو جانچنے والا ایک ادارہ موڈیز ( Moody’s) ( اس ادارے کا ذکر وطن عزیز میں کافی ہوتا رہتا ہے ) نے اسرائیلی کریڈٹ ریٹنگ کو دو درجہ کم کرتے ہوئے Baa 1 پر کر دیا۔ وطن عزیز، جہاں ان اداروں اور ان کی کریڈٹ ریٹینگ کا ذکر خوب رہتا ہے، ماہرین اس درجہ بندی کے اثرات سے خوب واقف ہوں گے۔

اکتوبر 2023 میں جنگ شروع ہونے کے پہلے تین مہینوں میں اسرائیلی جی ڈی پی میں اکیس فیصد کمی ہوئی اور اس سال جولائی میں اسرائیلی بینک نے معاشی پیداوار میں 1.5 فیصد کا تخمینہ لگایا ہے جبکہ کچھ بین الاقوامی اداروں نے اس سے بھی کم تخمینہ لگایا ہے۔ اور کچھ لوگوں کے نزدیک اگر جنگ کی موجودہ پالیسی میں بڑی تبدیلی نہ کی گئی تو بدترین اقتصادی حالات کی لیے تیار رہنا ہو گا۔ بے یقینی کی کیفیت اتنی بڑھ چکی ہے کہ انداز پانچ لاکھ افراد پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں ان میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ ملک سے ماہرین کی بیرون ملک روانگی تو جنگ سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی کیونکہ گزشتہ سالوں میں دائیں بازو کے انتہاء پسندوں کی حکومت نے ملک میں مذہبی عدم برداشت اور نسل پرستی کو ہوا دی ہے۔

اسی طرح یمنی انصار اللہ کی طرف سے اسرائیلی ناکہ بندی کے نتیجے میں درآمدات کی قیمتوں اضافہ ہو چکا ہے اور یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ ٹورازم بالکل ختم ہو کے رہ گیا ہے ۔ اسرائیلی تحقیقی ادارے کوفیک (Cofactors BDI) کے مطابق اس سال 60 ہزار سے زائد بزنس بند ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ اسرائیل میں لازمی فوجی سروس کا قانون ہے جس کی تحت ہر بالغ مرد اور عورت فوجی تربیت حاصل کرتے ہیں اور نارمل حالات میں ایک پروگرام کے تحت ہر فرد اس پروگرام میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں لیکن ایک سال سے جاری جنگ کا مطلب ہے کہ صنعتی اور کاروباری لحاظ سے تربیت یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد طویل عرصے سے اپنے کام کے لیے موجود نہیں ہے۔

اسی طرح زراعت کا حال ہے کہ ملک کے شمال اور جنوب کا ایک میں بڑا علاقہ ویران پڑا ہے کیونکہ وہاں کی آبادی کو وسطی علاقے میں منتقل کر دیا گیا تھا کیونکہ حزب اللہ اور حماس کے راکٹوں نے ان علاقوں کو اپنے زد میں لے لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتوں اضافہ ہو گیا۔ اب لبنان پر حملے کی شروعات اسی مسئلے کے حل کے لیے ہیں۔ اور بہت سے شعبوں پر ایسے ہے اعداد و شمار موجود ہیں۔

ابھی تک کی فلسطینی نسل کشی کی اس جنگ میں یورپ، امریکہ اور کی بھرپور امداد شامل ہے۔ وہاں کی اسلحہ کی فیکٹریاں دن رات مصروف ہیں اور یہ سارا خرچہ ان ممالک کے عوام اپنے ٹیکسوں سے ادا کر رہے ہیں، ذرا سوچیں اگر اسرائیلی لوگوں کو اس جنگ کی قیمت اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتی تو کیا وہ پھر بھی اس جارحیت کی اجازت دیتے۔

اب آئیے سفارتی محاذ پر جہاں ایک زمانے میں اسرائیل کے بارے میں عمومی مثبت تاثر تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں پر ہونے والے مظالم کو دن رات کی محنت، ہولی وڈ فلموں، اور سکولوں کالجوں میں سلیبس کے ذریعے اذہان میں اس طرح بٹھا دیا گیا کہ اسرائیل کا گزشتہ پچھتر سال سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان سے غیر انسانی سلوک عمومی طور پر نظر انداز ہو جاتا۔ حالیہ جنگ میں اگرچہ مغربی میڈیا کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی اور عوام کو یک طرفہ تصویر دیکھا گئی لیکن سوشل میڈیا زمینی حقائق کو اس طرح منظر عام پر لایا کہ اب یہ کسی طرح چھپ نہیں سکتے۔

مغربی ممالک میں عوام عمومی طور پر اور طلبا بالخصوص یونیورسٹیوں میں اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں ساٹھ اور ستر کی دہائی کے بعد طلبا یک زبان ہو کر اپنی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرتے آرہے ہیں۔ سفارت محاذ پر تاریخ میں پہلی بار بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) اور بین الاقوامی کریمنل کورٹ (ICC) میں ترقی پذیر ممالک مقدمہ لے کر گئے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ان عدالتوں کا کام افریقی آمروں یا بلقان کے لیڈروں پر ہی مقدمات چلانا ہی تھا۔ لیکن آج جنوبی افریقہ کی جرات مندی کی وجہ سے ICJ میں اسرائیلی ریاست کو جوابدہ ٹھہرانے اور ICC میں اسرائیلی لیڈروں کو جنگی جرائم میں ممکنہ گرفتاری کا سامنا ہے۔ اسرائیلی ریاست کا اخلاقی جواز مٹی میں مل چکا۔

ایسے حالات بن چکے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم کو اقوام متحدہ میں ”اپنی جیت“ کا اعلان کرنا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر انتہائی مظالم ڈھانے میں کامیاب ہے، وہ لبنان میں مزاحمتی تحریک کے سربراہ حسن نصراللہ کو بھی راستے سے ہٹانے میں کامیاب نظر آتا ہے لیکن اسرائیلی لیڈر شاید اس قدرتی قانون کی بھلائے بیٹھے ہیں کہ انسانی جسم کو تو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن خیال اور جذبہ آزادی کو نہیں۔ جنگ کا یہ معرکہ تو شاید اسرائیل کے نام رہے لیکن اس طویل جنگ کا خاتمہ اب اس کے اختیار میں نظر نہیں آتا۔


Author: ڈاکٹر افتخار احمد، برطانیہ

Reference Link:- https://www.humsub.com.pk/565255/dr-iftikhar-ahmad-34/

By admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *