فلسطینی نسل کشی: نوجوانوں کا احتجاج اور مغرب میں ضمیر کی کشمکش

  ڈاکٹر افتخار احمد، برطانیہ mediarightsusaPoliticseurope

کسی نئے موضوع پر لکھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اپنی کہی جانے والی بات پوری کی جائے کہ جہاں فلسطینی زندگی کا گلا گھونٹنے کی اسرائیلی کوششیں اپنے مربی مغربی حکمران اشرافیہ یعنی پالیسی سازوں کے زیر نگرانی جاری ہو ساری ہیں، وہیں بقیہ دنیا اس کے خلاف جدوجہد میں شامل ہوتی جا رہی ہے۔ اس جدوجہد کے بہت سے محاذ ہیں اور مختلف افراد اور اقوام ان محاذوں پر سرگرم عمل ہیں۔ مثلاً عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کا اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف مقدمہ ہو یا حالیہ دنوں میں جنوبی امریکہ کے ملک نکاراگوا کا جرمنی کا اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع، جنوبی افریقہ کا اپنے اوپر پڑنے والے امریکی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے کمزور مڈل آمدنی والے ممالک کے اتحاد کی کوششیں ہوں یا انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے پراسیکوٹر کے اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کی گرفتاری کے لیے وارنٹ کی درخواست ہو یا عام انسانوں کی اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے جنگی جرائم کے خلاف تقریباً تمام ممالک میں احتجاجی مظاہرے، جن کے ذریعے وہ اپنے اپنے پالیسی سازوں پر فوری جنگ بندی اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی پر زور دیتے آ رہے ہیں۔

اپنے گزشتہ بلاگز میں ان پہلوں پر بات ہوئی لیکن آج مغربی دنیا بالخصوص امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ کی اس سلسلے میں جدوجہد اور اس کشمکش کا ذکر رہے گا کیونکہ جہاں یورپ ”آزاد“ دنیا کے انسانی حقوق، جمہوریت اور حق آزادی رائے کے اصولوں کو اپنی تہذیب کی بنیاد قرار دیتا ہے وہیں امریکہ اس تہذیب کا سرخیل سمجھا جاتا ہے۔

اگرچہ اسرائیلی کی فلسطینیوں کے خلاف نسل پرست ( Aparthied) پالیسی کے خلاف بائیکاٹ، اسرائیل میں سرمایہ کاری پر بندش اور اس کے اداروں پر پابندی (BDS) کی مہم عرصے سے جاری ہے جس کا مقصد فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی امداد کو منظم کرنا ہے اور یہ یورپ اور امریکہ میں اپنے قدم جماتی نظر آ رہی تھی لیکن 7 اکتوبر کے بعد اسرائیلی بربریت نے عوام بالخصوص کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نوجوانوں میں بے چینی کی ایک ایسی لہر دوڑا دی جو حکومتی دباؤ کے باوجود پھیلتی نظر آتی ہے۔

اگر ہم بات امریکہ کریں تقریباً ہر تعلیمی ادارے میں نوجوان طلبہ اس وحشت خیزی کے خلاف اٹھے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے خیموں اور کارڈ بورڈ کی مدد سے پرامن دھرنا دیا ہوا ہے۔ ان کا مطالبہ کیا ہے؟ شروع کے دنوں میں تمام مظاہرے فوری جنگ بندی کی بات کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کے مطالبات کو صحیح رخ ملنا شروع ہو گیا۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ ان کے تعلیمی ادارے، جہاں وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انتہائی مہنگی فیس اداکرتے ہیں، اپنی بچتوں کی سرمایہ کاری ایسے اداروں میں کرتے ہیں جو اسرائیلی ریاست اور اس کی نسل پرست پالیسیوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ طلبا کے احتجاج کی موجودہ لہر اس وقت تمام ملک میں پھیل گئی جب سات اپریل کو کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک میں طلبا کیمپ کو ہٹانے کے لیے پولیس کو بلایا گیا اور اس کے طلبا پر تشدد نے صورت حال کو اور خراب کر دیا۔ اب چاہے امریکہ کی کوئی یونیورسٹی ایسی نہیں ہو یا یورپ بشمول برطانیہ جہاں طلبا اسرائیلی بربریت کے خلاف سراپا احتجاج نہ ہوں لیکن اگر آپ میڈیا پر نظر ڈالیں تو ہر طرف سکون ہی سکون نظر آتا ہے۔

سیاست دانوں کی اکثریت اس احتجاج کو ”یہود دشمن“ یعنی (anti-Semitic) قرار دیتی ہے۔ امریکہ میں حکمران ڈیموکریٹک پارٹی ہو یا اپوزیشن ریپلکن ہو، ان کے نمائندے بشمول امریکی صدر طلبا کی اس تحریک کو ”فسادی“ قرار دیتے ہوئے سوسائٹی میں ”یہود دشمن“ رویوں کی وجہ بتاتے نہیں تھکتے۔ وہ امن قائم رکھنے کے نام پر ان طلبا پر پولیس تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے۔ امریکی صدر ”امن“ کے نام پر ایک ایسی خاموشی چاہتے ہیں جہاں ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام میں مصروف اسرائیلی ریاست کے خلاف کوئی بات نہ ہو، جہاں اقوام متحدہ میں جنگ بندی پر پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کرنے پر اس پر کوئی تنقید نہ ہو۔ جہاں وہ کبھی کبھار (شاہد ضمیر کے دباؤ) اسرائیل کو ہلکی سی ڈانٹ ڈپٹ کر کے اپنے بناوٹی غصے کا اظہار کرنے کو کافی سمجھیں۔

ہم جیسے ملکوں میں تو امریکی حکمرانوں کی باتیں آسمان سے اتری سمجھی جاتی ہیں لیکن امریکی نوجوان اس منافقت کو خوب سمجھتے ہیں اور اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

طلبا کی جدوجہد کا فوری مقصد جہاں اپنی اپنی یونیورسٹی کو اس اسرائیلی وحشت میں حصہ ڈالنے سے روکنا ہے وہیں وہ امریکی عوام کے سامنے فلسطینیوں کی حالت زار کو بھی اجاگر رکھنا چاہتے ہیں۔ ابھی رافع (Rafa) پر حملے سے پہلے امریکی اور مغربی میڈیا میں غزہ بارے خبریں صفحہ اول سے غائب ہونا شروع ہو گئی تھیں حالانکہ شمالی غزہ میں اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے قحط اور بیماریوں کی گرفت سخت تر ہوتی جا رہی ہے۔ غزہ بارے خبر اگر آ بھی جاتی تو وہ مذاکرات اور ان کی ذیلی تفصیل یا جنگ کے بعد کا غزہ یا اسرائیلی یرغمالیوں اور ان کے خاندانوں کی حالت زار یا اسرائیل پر تنقید بارے حق آزادی رائے کی حدود تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔

طلبا تحریک کا دوسرا مقصد امریکی انتخابی سال میں امریکی صدر کی سیاسی پوزیشن پر اثر انداز ہونا ہے کیونکہ امریکی اسلحہ کی فراہمی اور سفارتی محاذ پر اس کی جاری حمایت سے ہی اسرائیل اپنی وحشیانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

اپنی جدوجہد کے ذریعے طلبا قومی سطح پر ایک ایسی فضا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے ذریعے وہ صدر بائیڈن پر موجودہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی پالیسیوں کو روکنے کے لیے دباؤ بڑھا سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک سے زائد قانونی ماہرین امریکہ کی موجودہ پالیسی کو قومی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف قرار دے چکے ہیں۔ خود عالمی عدالت انصاف گزشتہ جمعہ اسرائیل کو رافع میں جنگی کارروائی سے روکنے کا حکم جاری کر چکی ہے۔

طلبا کی اس جدوجہد میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ مروجہ نظام ہے جس میں قومی سطح پر کسی بھی بات چیت کا تعین ملک کی سیاسی اور میڈیا کلاس اپنے مفادات کے تحت کرتی ہے اور اس طبقے کے حساب سے غزہ میں بپا قیامت کوئی اتنی اہمیت نہیں رکھتی چاہے اس سے اخلاق اور قانون کی پائمالی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی احتیاط اور محنت سے میڈیا نے ان مظاہروں اور ان میں حصہ لینے والوں کو ہی ”مسلۂ“ بنا کر پیش کر دیا ہے اور لوگوں کی توجہ ان وجوہات سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے جن کی وجہ سے یہ لوگ مظاہرے کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ یا دوسری انسانی حقوق کی تنظیموں کی غزہ میں زمینی حقائق اور انسانی مصیبت کے بیان سے لوگوں کی توجہ ہٹانا ہی اب مرکزی میڈیا کا اصل مقصد ہو۔

کبھی ایسا لگتا ہے کہ طلبا کا موجودہ احتجاج ایک دلدل سی بن گیا ہے : غزہ پر مظالم کو اجاگر کرنے کی ان کی جدوجہد جیسے جیسے زور پکڑتی نظر آتی ہے ویسے ویسے غزہ میں جاری فلسطینی نسل کشی منظر سے غائب ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا نے ان کی اس جدوجہد کو بہانہ بنا کر غزہ کو نظر انداز کر کے اپنی تمام توجہ اس احتجاج پر مرکوز کر لی ہے۔

طلبا کا یہ احتجاج شروع سے ہی مکمل طور پر پرامن ہے۔ کہیں کوئی سڑک نہیں بلاک ہوئی، نہ ہی کسی کی جائیداد کو نقصان پہنچا اور یہ کہ طلبا زیادہ تر اپنے اپنے تعلیمی اداروں کے احاطے میں احتجاج کرتے رہے۔ لیکن میڈیا میں ان کے نعروں اور تقاریر کو ”تشدد پسندی“ اور ”یہود دشمن“ طور پر پیش کیا گیا۔ ان کے نعرے بالخصوص ”River to the sea، Palestinian Will be free“ کو یہود دشمن قرار دیا گیا۔ اس نعرے کو روکنے کے لیے کچھ ممالک میں قانون سازی تک پر غور کیا گیا۔

میڈیا نے ان مظاہروں میں شامل بڑی تعداد میں یہودی طلبا کی موجودگی کو بالکل نظرانداز کر دیا۔ میڈیا کے خود ساختہ بیانیہ کو نئی جہت دینے کے لیے یونیورسٹیوں میں موجود چند صیہونی افراد ”zionist“ ، جو کہ اس نسل کشی کو روکنے کی عالمی تحریک کے مقابلے میں اسرائیل کے حامی ہیں، کو سامنے لایا گیا کہ وہ ”غیر محفوظ“ محسوس کرتے ہیں۔ اس سارے شوروغوغا میں یہ صحافی اس بات کو بھول گئے کہ مظاہروں میں شامل یہودی طلبا اور دوسرے مسلم اور فلسطینی طلبا کیسے ”غیر محفوظ“ محسوس کرتے ہوں گے جن کو خود امریکی کانگریس اور امریکی صدر نے کھلم کھلا نہ صرف ”یہود دشمن“ بلکہ نظام کے لئے ”خطرہ“ قرار دیا۔

امریکی سیاسی راہنماؤں کی کھلم کھلا مخالفت سے شہ پا کو اور اپنے مالی مفادات کو خطرات میں دیکھتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کو بلانے کا غیر معمولی فیصلہ کیا اور پولیس بھی ایسی تیاری کے ساتھ آئی جیسے جنگ پر جا رہی ہو حالانکہ دوسری طرف نہتے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھے، جو مکمل طور پر پرامن تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں طلبا پر تشدد اور سیکڑوں طلبا کی گرفتاری اور مین سٹریم میڈیا پر اس کی یک طرفہ رپورٹنگ پر ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور دیگر سٹاف بھی اپنے طلبا کی حمایت میں باہر نکل آئے۔

آپ نے سوشل میڈیا پر Dartmouth College کی خاتون پروفیسر Annelise Orleck کی گرفتاری کی وڈیو تو دیکھی ہی ہو گی، حالانکہ وہ وہاں اپنے طلبا کو بچانے کے لیے پولیس کے سا، نے سینہ تانے کھڑی تھیں۔ یاد رہے کہ یہ خاتون پروفیسر خود یہودی ہیں۔ ایسے مناظر تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں دیکھنے کو ملے لیکن سوشل میڈیا پر نہ کہ مین سٹریم میڈیا پر۔

امریکہ، جہاں انسانی حقوق اور آزادی رائے ایک پیدائشی حق سمجھا جاتا ہے، کے میڈیا یعنی اخبارات اور ٹیلی ویژن پر پولیس تشدد کے ان مناظر پر نئے نئے زاویوں سے توجیہات پر بہت وقت صرف ہوا۔ دلائل میں جھوٹی وڈیوز کا سہارا لیا گیا۔ صحافیوں نے اس سلسلے میں جو اتنی محنت دکھائی، کاش ضمیر کی ہلکی سی چبھن سے وہ اس مسئلے پر بھی تھوڑی سی ہی توجہ مرکوز کر دیتے جس کی وجہ سے یہ سب مظاہرے ہو رہے ہیں۔ چلیں ان کو فلسطینی بچوں کی لاشیں نظر نہیں آئیں، وہ غزہ کی بارہ کی بارہ یونیورسٹیوں کی اسرائیل کے ہاتھوں تباہی پر ہے کچھ روشنی ڈالتے لیکن اخلاقیات کا حال تو یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ کی تو کیا بات کریں، سی این این ( سی این این ) جیسے آزادی رائے اور انسانی حقوق کے علمبردار ادارے کی میزبانDana Bash نے تیار کردہ بیانیے کے تحت ان طلبا کو ”نازی“ قرار دیے دیا۔ نیویارک ٹائمز کی انتظامیہ کی طرف سے صحافیوں کو اس سلسلے میں نسل کشی ”genocide“ جیسی اصطلاحات سے پرہیز کا مشورہ دیا گیا۔

یورپی ممالک بشمول برطانیہ میں صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ابھی تک کسی یونیورسٹی میں پولیس کو تو نہیں بلایا گیا بلکہ کئی جگہ انتظامیہ نے طلبہ کو کیمپس میں پرامن احتجاج کی اجازت بھی دی جو کہ سیاست دان اور میڈیا لوگوں سے چھپا رہے ہیں۔

اس تمام احتجاج کا کیا کوئی اثر بھی ہو رہا ہے؟ یہ ہے وہ خوف جس نے سیاست دانوں اور میڈیا کی نیند اڑا دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طلبا کے اس احتجاج نے اسرائیلی ریاست کے تصور کو نہ صرف نقصان پہنچایا ہے بلکہ وہ عوامی رائے پر بھی اثرانداز ہو ہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق دس میں سے چار امریکی شہری اب سمجھتے ہیں کہ اسرائیل نسل کشی کے جرم کا مرتکب ہو رہا ہے۔

بہت سی یونیورسٹیاں اس احتجاج کو پرامن طور پر ختم کرنے کے لیے یہ وعدہ کر چکی ہیں کہ وہ اسرائیلی نسل کشی سے متعلقہ انڈسٹریز میں ہونے والی اپنی سرمایہ کاری کو اگر ختم نہ کر سکے تو کم ضرور کر دیں گے۔ وعدے پورے ہوتے ہیں یا نہیں مستقبل ہی بتائے گا۔ آثار تو بہتر ہی نظر آتے ہیں۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو کسی ملک کے مستقبل کو متعین کرتے ہیں اس لیے امید ہے کہ اگرچہ آج تو اندھیرا ہے لیکن آنے والا کل ان نوجوانوں کا ہے اور روشنی کے آثار واضح ہیں اگرچہ اندھیروں کے سوداگروں کی پوری کوشش ہے لوگوں تک روشنی کی کرن نہ پہنچے۔

اس سلسلے میں ایک اہم پیش رفت چند یونیورسٹیوں کا ”یہود دشمنی“ یعنی Antisemitism کی تعریف کی تشریح نو کا وعدہ ہے۔ یاد رہے کہ International holocaust Remembrance Alliance (IRHA) نامی تنظیم نے ”antisemitism“ کی انتہائی وسیع تعریف بیان کی ہے جس کو مغربی ممالک کے تمام بڑے ادارے بشمول ریاستیں تسلیم کرچکی ہیں۔ اس تعریف کے سائے اتنے طویل ہیں کہ اس کی زد میں اظہار آزادی کا بنیادی حق بھی آ چکا ہے۔ اس نے یہودیت اور اسرائیلی ریاست کے درمیان فرق کو مٹا دیا ہے حتی کہ اسرائیلی پالیسی پر تنقید بھی anti-Semitic تصور کی جا رہی ہے لیکن اس پر بات پھر کسی نشست میں

ڈاکٹر افتخار احمد، برطانیہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *