فلسطین: اجتماعی سزا اور نسل کشی

Writer: Dr. Iftikhar Ahmed, UK.

جب آپ یہ الفاظ پڑھ رہیں ہیں تو ”غزہ میں جاری“ موت کے رقص ”کو تقریباً چار ہفتے ہونے والے ہیں۔ اب تک کے سکور کارڈ کے مطابق 1405 اسرائیلی شہری ماری جا چکے ہیں دو سو سے زیادہ حماس کی قید میں ہیں جبکہ غزہ میں جان سے ہاتھ دھو نے والوں کی تعداد نو ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں بچوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زائد ہے۔ اسی طرح زخمی ہونے والوں کی تعداد تقریباً بتیس ہزار سے زائد ہے جن میں چھ ہزار سے زائد بچے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ چھبیس دنوں کی تباہی ہے۔

اسی دوران ایک اور جنگ بھی جاری ہے جس کو شروع ہوئے 563 دن گزر چکے ہیں جی ہاں میں روس اور یوکرائن کی جنگ کی بات کر رہا ہوں اور اس تقریباً دو سالہ جنگ میں شہری جو جان سے ہاتھ دو بیٹھے ان کی تعداد بھی ساڑھے نو ہزار بنتی ہے۔

سات اکتوبر کے بعد فلسطینی کنٹرول میں مغربی کنارے کے علاقے میں اسرائیلی فوج اور آباد کاروں کے ہاتھوں دینے والوں کی تعداد سینکڑوں میں جا چکی ہے، زخمی ہونے والے ہزاروں میں ہیں اور گرفتار شدگان میں 1800 سے زیادہ شامل ہیں۔ بین الاقوامی نظام کے کرتا دھرتا پہلے چند دنوں میں اسرائیل آ کر اپنی حمایت کا یقین دلانے کے ساتھ ساتھ علاقے میں دوسروں کو مداخلت سے باز رہنے کے لیے بذات خود خبردار کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا پالیسی ساز ادارہ یعنی سکیورٹی کونسل مفلوج ہے اور غریبوں کے ادارے جنرل اسمبلی میں بھاری اکثریت سے منظور شدہ قرار دادیں ماضی کی روایت کی طرح بس باتیں ہی ہیں۔

جنرل سیکریٹری کو اپنے بیان کی وضاحت کے لیے دوبارہ بیان دینا پڑا۔ ان کا صرف یہ کہنا تھا کہ سات اکتوبر کا حماس کا حملہ پس منظر کے بغیر نہیں ہے۔ دنیا کے سب بڑے بڑے شہروں میں عوامی مظاہروں میں فلسطینیوں سے یکجہتی اور مسلسل بمباری کے خلاف جذبات کا اظہار جاری ہے۔ یہ سب باتیں تو آپ نے سن اور دیکھ بھی لی ہوں گی تو نیا کیا ہے سوائے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ۔ آج ذرا ان تین ہفتوں میں ہونے والے واقعات کے پس منظر کی بات کرتے ہیں۔

اسرائیل کی دن رات بمباری بالخصوص ہسپتالوں اور سکولوں کو نشانہ بنانے کی سٹریٹجی نے ان اقدامات کے بارے میں جنگی جرائم بالخصوص نسل کشی ( genocide) کی بحث شروع کر دی ہے۔ جدید دور کی جنگوں میں پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیف یعنی یورپ، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ نے سیز فائر کی بھی مخالفت کر دی ہے۔ امریکہ نے اس بارے میں سکیورٹی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ مغربی اقوام نے غزہ کے محاصرے اور اس پر بمباری کو جائز قرار دیتے ہوئے اسے اسرائیل کے اپنی حفاظت کے حق کے مترادف قرار دیا ہے۔ غزہ جیسا محاصرہ اور اس پر ہونے والی بمباری کی مثال اگر تاریخ میں ڈھونڈیں تو شاید دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوجوں کی اسٹالن گراڈ ( موجودہ پیٹرزبرگ) سے دی جا سکتی ہے جس میں اس شہر کی نوے فیصد عمارتیں تباہ ہو گیں تھیں۔

میرا اندازہ ہے کہ موجودہ جنگ دراصل اسرائیل کی اس کوشش کا حصہ ہے جس کے تحت وہ نہ صرف فلسطینی لوگوں کو اس زمین سے ختم کرنا چاہتا ہے بلکہ اس کا بس چلے تو فلسطین نامی خیال پر بھی پابندی عائد کر دے۔ کیا ایسا پہلے بھی ہوا ہے۔ دراصل ایسا تاریخ میں پہلے بھی ہو چکا ہے جب نوآبادیاتی سامراجی طاقتوں نے مقامی آبادیوں کو اس طرح ختم کیا کہ وہ اپنی ہی زمین میں اجنبی بن کر رہے گئے۔ اسرائیل کی غزہ میں پانی، بجلی اور گیس کی فراہمی اسی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر پابندی، درجنوں صحافیوں کا قتل، یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے ملازمین اور صحت کے حکام بھی نہیں بچ سکے۔ لگتا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ مہم کے نتیجے میں غزہ بھی انسانی رہائش کے قابل نہیں رہے گا۔ یہی طریقہ نازی جرمنی بھی اپنے سامنے مسلح جدوجہد کرنے والوں سے اپناتے تھے۔ ایسا ہی کام وارسا میں یہودیوں کی مسلح جدوجہد کے ردعمل پر جرمنی نے انجام دیا تھا۔

اگر آپ اسرائیلی راہنماؤں کے بیانات پر غور کریں، جن میں اسرائیلی وزیراعظم، صدر کابینہ کے وزیر شامل ہیں، تو یہی مماثلت وہاں بھی نظر آتی ہے۔ مثلاً فلسطینوں کو جانور، نازی کہنا، کہ ان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کے بچوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے اور یہ کہ زمین کو ان کے وجود سے صاف کر دینا ہو گا۔ یہی وہ زبان تھی جو 1930۔ 1940 میں نازی جرمنی میں یہودیوں کے خلاف استعمال کی گئی۔

اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، آپ دور مت جائیں پوری زمین پر بکھری ہوئی مقامی لوگوں سے پوچھ لیں چاہے وہ مقامی امریکی ہوں یا افریقی، شامی ہوں یا عراقی، لیبیائی شہری ہوں یا افغانی سب آپ کو اس نوآبادیاتی ذہنیت کے بارے میں بتائیں گے جو آج اپنی پوری قوت سے اسرائیلی نوآبادیاتی جنگی مشینری کی شکل میں اپنی فطرت کے عین مطابق فلسطینوں کو دبا کر رکھنے میں مشغول ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے یہ ذہنیت پہلے اپنے مخالفین کو خاص غیر انسانی پہچان دیتی ہے اور میڈیا کے ذریعے وہ الفاظ روزمرہ کی بات چیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایک بار یہ نارمل ہو جائے تو پھر اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس کی عکاسی اسرائیلی پارلیمنٹ میں حکومتی پارٹی کی رکن کی زبان میں ادا ہوئے اس جملے ”غزہ کی پٹی کو روئے زمین سے مٹانا چاہیے“ میں ہوتی ہے۔

سابق اسرائیلی وزیراعظم نفطالی بیننٹ (Naftali Bennet) نے بارہ اکتوبر کو ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ”ہم نازیوں سے لڑ رہے ہیں“ اپنے قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہاں نازی کی اصطلاح کا استعمال ”مکمل بدی“ کے معنوں میں ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم نائتن یاہو نے جرمن چانسلر اولاف شلز کے ساتھ پریس کانفرنس میں ”حماس“ کو ”نئے نازی“ کے نام پکارا۔ جنگی جرائم جن کے بارے میں اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے اپنے اپنے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں جن میں کسی قوم کو اجتماعی سزا اور ان کی نسل کشی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

آج کیوں نہ اس منافقت کی بات کریں جو تہذیب کی علمبردار مغرب کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ جہاں رات دن انسانی حقوق کی گردان جاری رہتی ہے لیکن جب محکوم سر جھکا کر زندگی گزارنے سے انکار کر دے تو یہی اقوام ”تہذیب یافتہ ہونے“ کے تمام دعووں اور اداکاری کو ایک طرف رکھ کر وحشت اور بربریت کے جہنم کے دروازے کھول دیتی ہیں جیسا کہ آج کل غزہ میں ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تشدد اور اس کے عملی مظاہرے میں آج مغربی تہذیب کا کوئی بھی مقابل نہیں۔

یہ تہذیب جمہوریت یا آزادی رائے یا حریت پر تو یقین رکھتی ہے لیکن صرف اپنے لیے۔ دوسروں کے لیے اس کے معیار مختلف ہیں۔ آپ تہذیب کے ان علمبرداروں کو امن کی باتیں کرتے ہوئے ٹی وی سکرین پر دیکھتے ہیں جہاں وہ اپنی اخلاقیات کی برتری، انسانی احترام کی بات کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ آپ کی خوش فہمی ہے کہ اگر آپ یہ سمجھیں کہ یہ اصول آپ پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ دنیا آہستہ آہستہ ان کے طلسم سے آزاد ہوتی جا رہی ہے جس کی عکاسی ہر جگہ ہونے والے مظاہروں میں ہو رہی ہے۔

بات طویل ہوتی جا رہی ہے۔ بے بس فلسطینی، جو پہلے ہی مہاجر کیمپوں میں نسل در نسل رہتے ہیں، اسی ظلم و ستم کا شکار ہیں جو کبھی یہودیوں کے لیے مخصوص تھا اور المناک ستم ظریفی تو یہ ہے کہ کل تک نسل کشی کا شکار ہونے والے آج نسل کشی کے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اگرچہ آج شاید اپنے طاقتور دوستوں کی پشت پناہی میں بچ نکلیں لیکن تاریخ یاد رکھتی ہے۔

Reference Link: https://www.humsub.com.pk/529107/dr-iftikhar-ahmad-30/

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *