فلسطینی جدوجہد آزادی اور اسرائیلی فسطائیت: چند خیالات

آج بروز منگل غزہ اور گردونواح میں جاری موت کا رقص، جو کم و بیش گزشتہ 75 سال سے جاری ہے، پوری شدت سے پھر بھڑک اٹھا ہے۔ ”غیر جانبدار“ انٹر نیشنل میڈیا کے مطابق ”دہشت گرد“ حماس نے ہفتے کی صبح ”بغیر کسی اشتعال انگیزی“ کے اسرائیلی پر راکٹوں، موٹر سائیکلوں، پیرا گلائیڈنگ اور گاڑیوں سے مسلح ہو کر حملہ کر دیا۔ سرحدی حفاظتی باڑ کو کئی جگہ سے کاٹ کر ”نہتے“ اسرائیلی شہریوں کو اس ”دہشت گردی“ کا نشانہ بنایا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زیادہ اسرائیلی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

ابتدائی شاک سے گزرنے کے بعد اسرائیلی ائرفورس نے غزۂ کی انتہائی گنجان آبادیوں پر بمباری شروع کر دی ہے اور اطلاعات تک ساڑھے چار سو سے زائد فلسطینی جان گنوا چکے ہیں اور زمینی حملے کے لیے اسرائیلی ریزرو فوجیوں کو ساری دنیا سے اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ یہ ہے وہ حقیقت جس کے لیے میں نے ”موت کا رقص“ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ آپ کے لیے شاید یہ ایک خبر ہی ہو لیکن مغربی کنارے میں اوسلو معاہدے کے تحت قائم ”فلسطینی ریاست“ (اگر اس کو ریاست کہا جا سکتا ہے ) میں اسرائیلی فوج مختلف بستیوں میں مقامی لوگوں سے لڑائی دو سو سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر چکی ہے۔ ”غیر جانبدار“ انٹرنیشنل میڈیا میں اس بارے میں شائع ہونے والی خبروں کی تلاش کے لیے ایک خوردبین کی ضرورت ہوگی۔

”دہشت گرد“ اور ”بغیر کسی اشتعال کے“ جیسی زبان کا استعمال اسرائیل کے لیے کوئی نئی نہیں ہے کیونکہ گزشتہ ستر پچھتر سالوں سے ان ہی اقدامات کے ذریعے اس نے تاریخی فلسطین کے تین چوتھائی سے زیادہ رقبے پر قبضے کے لیے ساڑھے پانچ سو سے زائد فلسطینی دیہات اور قصبوں کو تباہ و برباد اور پندرہ ہزار فلسطینی افراد کو قتل کر دیا۔ 1948 میں قائم ہونے والی اس ریاست کے لیے 1947 اور 1949 کے درمیان ساڑھے سات لاکھ فلسطینوں کو اپنے گھروں سے در بدر کر دیا جو آج بھی اردن شام لبنان کے کیمپوں میں آباد ہیں اور یہ مت بھولیے کہ غزۂ کی موجود آبادی کی اکثریت ان ہی مہاجرین کے اولاد ہے۔

اکا دکا جھڑپیں اور ”دہشت گرد“ کارروائیاں تو چلتی ہی رہتی ہیں جن کے جواب میں اسرائیل کی کارروائی کو ”اپنے دفاع کے حق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن حماس کا ہفتے کے روز کیے جانے والا حملہ تو اکتوبر 1973 کے بعد سب سے بڑی کارروائی گردانا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اکتوبر 1973 کو مصر اور شام کے مشترکہ فوجی حملے سے اسرائیل کو اپنی بقا کے لالے پڑ گئے تھے ( تفصیل آپ کہیں بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن میں مصری دانشور محمد حسنین ہیکل کی کتاب ”Autumn of Fury“ کی سفارش کروں گا) ۔ واپس آج کے حالات پر آتے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نے غزۂ کے فلسطینی عوام کو تنبیہ کی ہے کہ وہ ”نکل جائیں“ کیونکہ اب غزہ میں ”چھپنے کی کوئی جگہ نہیں چھوڑی جائے گی“ ۔ لیکن غزۂ کے رہائشی جا کہاں سکتے ہیں۔ یہ ایک ساحلی پٹی ہے جو جنوب مغرب میں ساڑھے چھ میل طویل بارڈر سے مصر سے گھرا ہوا ہے اور شمال میں بتیس میل لمبا بارڈر اسرائیل سے ملتا ہے۔ باقی طرف سمندر ہے۔ اس طرح چاروں طرف سے گھرے اس علاقے کو، جہاں بیس لاکھ سے زائد افراد رہتے ہیں، دنیا کی سب سے بڑی جیل بھی کہا جاتا ہے۔

غزہ کی آبادی کا پچاس فیصد حصہ پندرہ سال سے کم عمر کا ہے۔ گزشتہ سولہ سال سے اس علاقے کو اسرائیل اور مصر نے محصور کر رکھا ہے اور ان دونوں ممالک کی اجازت کے بغیر کوئی انسان یا چیز سرحد پار نہیں کر سکتی۔ غزہ میں بیروزگاری کی شرح ستر فیصد سے زیادہ ہے۔ نوے فیصد سے زائد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں ہے۔ بجلی کی فراہمی مکمل طور پر اسرائیل کے کنٹرول میں ہے اور عموماً دو سے چار گھنٹے روزانہ کے حساب سے ملتی ہے۔ خود اسرائیلی اداروں کی اپنی تشخیص کے مطابق غزۂ کے لوگوں میں ”امید“ کم ہی ہے۔

اس صورتحال میں اسرائیل کا غزۂ پر فضائی اور زمینی حملہ ”نسل کشی“ کے مترادف ہے لیکن یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ ”اجتماعی سزا“ کا تصور استعماری طاقتوں کے لیے کافی پرانا ہے۔ حالیہ صدیوں میں یورپی استعمار نے اس کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ چند مثالوں سے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ امریکہ نے پہلے مقامی ”ریڈ انڈینز“ کے خلاف اور پھر فلپائن اور ویتنام میں یہی کچھ کیا۔ برٹش استعماری ریاستی کارپردازوں نے ملایا اور کینیا میں یہی پالیسی پر عمل کیا اور دور کیوں جائیں وطن عزیز میں قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں ضمن ہونے سے پہلے یہاں بدنام زمانہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (FCR) کا نفاذ ہی تھا جس سے تحت کسی انفرادی جرم کے بدلے میں نہ صرف پورے خاندان بلکہ قبیلے تک کو سزا کا مستحق گردانا جاتا تھا اور بے شمار مثالیں اس پر عمل کی موجود ہیں۔

وطن عزیز میں حکومت کے مخالفین کو، ان کے خاندان والوں کو جیل میں ڈال کر یا اس کی دھمکی دے کر، کنٹرول کرنے کی روایت آج بھی موجود ہے۔ چلیے واپس اس ذہنیت کی طرف چلتے ہیں جو آج اسرائیلی حکومت کے ردعمل میں ظاہر ہوتی ہے اور جو گزشتہ پچھتر سال سے اس پالیسی پر لمحہ بہ لمحہ عمل کرتی رہی ہے یعنی تشدد کے بدلے میں مزید تشدد۔

حالیہ صدیوں کے انسانی تجربے نے واضح کر دیا ہے کہ یہ پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ محصور آبادی پر ریاستی ظلم و تشدد کبھی بھی امن کی طرف نہیں لے کر گیا۔ اگرچہ ”غیر جانبدار میڈیا“ بھی حماس کے حالیہ حملے کو فلسطینی عوام کی زندگی کو مشکل بنانے کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تاریخ کئی ایسی تحریکیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں لیکن انسانی جدوجہد اپنے جانے پہچانے راستوں پر ہی چلتی ہے اور اپنی آزادی کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت فلسطینی لوگوں سے اس جدوجہد کا حق کسی بھی طرح سے نہیں چھینا جا سکتا۔

اسرائیل کی ترجیحات میں فلسطینیوں کے لیے برابری اور انصاف کے اصولوں پر مبنی رویہ اور پالیسی کا وجود ہی نہیں ہے۔ نسل پرست (apartheid) اصولوں پر قائم یہ ریاست مسلسل عمل کے ذریعے فلسطینی زمین پر اپنا قبضہ بڑھا رہی ہے اور فلسطینوں کی اپنے گھروں سے بے دخلی روزمرہ کا معمولی بن چکی ہے۔ پالیسی کی سطح پر 1992 میں اوسلو معاہدے کو بھی اکتیس سال گزر چکے۔ مغربی کنارے پر فلسطینی انتظامیہ کی حیثیت سوائے یونین کونسل کے کارپردازوں کے کچھ اور نہیں رہ گئی چاہے ان کو صدر اور وزیراعظم کے القابات سے ہی کیوں نہ پہچانا جائے اور ان کا کام ہمارے ہاں قبائلی علاقوں میں متعین ”پولیٹیکل ایجنٹ“ سے زیادہ نہیں ہے۔

ان حالات میں اسرائیل یا دنیا فلسطینوں سے توقع کیا رکھتے ہیں؟

بیس لاکھ سے زائد افراد کو ایک جگہ محصور کر کے ان پر زندگی کی بنیادی ضرورتیں یعنی صاف پانی، دو وقت کا کھانا اور صحت کی سہولتوں کی کمی، روزگار کے مواقع پر شدید جکڑ بندیوں کے ساتھ ساتھ، چوبیس گھنٹے ڈرونز سے پوری آبادی کی مسلسل نگرانی، جہازوں، ٹینکوں اور توپوں سے بمباری اور لوگوں کو مسلسل خوف میں مبتلا رکھنا اور پھر کسی ردعمل کی توقع بھی نہ رکھنا؟

اسرائیل پر حالیہ حملوں میں حصہ لینے والے فلسطینی نوجوانوں کو پتہ ہو گا کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن دنیا میں آزادی کی تحریکوں میں جدوجہد کرنے والوں کی طرح انہوں نے بھی فیصلہ کر لیا ہو گا کہ اگر ان کے پاس اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا اختیار نہیں ہے تو کیا ہوا، وہ اپنی مرضی کی موت تو چن سکتے ہیں۔

بدقسمتی تو یہ ہے کہ نسل کشی اور فسطائیت پر مبنی اسرائیلی حکومتی کے صہیونی کارپرداز اپنی ہی تاریخ بھولے ہوئے ہیں کہ کس طرح صدیوں تک یورپین ممالک میں یہودیوں کا نام و نشان مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوششیں ناکام ہوئیں۔ یہاں صرف ایک مثال یاد دہانی کے لیے کہ شاید کے ترے دل میں اتر جائے میری بات۔

دوسری جنگ عظیم میں پولینڈ میں نازی قبضے کے بعد 1940 میں اس کے شہر وارسا کے ایک علاقے میں یہودیوں کو محصور کر دیا گیا تھا اور ایک وقت میں وہاں پر ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی اس علاقے کا رقبہ تقریباً ڈیڑھ مربع میل تھا، جی ہاں ڈیڑھ مربع میل، اوسط ایک کمرے میں نو افراد رہتے تھے۔ ہزاروں لوگ بھوک، بیماری اور متشدد رویوں کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ وہاں سے نازی ان کو جرمنی میں قائم اجتماعی قتل گاہوں تک لے جاتے تھے۔

تقریباً ڈھائی لاکھ لوگوں کو یہاں سے اس مقصد کے لیے لے جایا گیا۔ لوگوں نے جانے سے انکار کر دیا اور جدوجہد شروع ہو گئی۔ آج کی فلسطینی زبان میں اس جدوجہد کو ”انتفاضہ“ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ یہودی نوجوان جنہوں نے اس جدوجہد میں حصہ لیا وہ جانتے تھے کہ نازی جنگی مشینری کے سامنے موت یقینی ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں بل آخر نازی جرمنوں کو 1943 میں یہ محصوری ختم کرنا پڑی۔ اس مسلح جدوجہد کے بچ جانے والے ایک لیڈر کا نام میرک ایڈلمین (Marek Edalman) تھا جس نے بعد میں صہیونی اسرائیلی پروگرام کے بلند آواز میں مذمت کی اور فلسطینوں پر اسرائیلی پالسی پر سخت تنقید کی۔

وارسا انتفاضہ (Warsaw uprising) بہت عرصے تک فلسطینیوں کے لیے مشعل راہ بنا رہا۔ ایک زمانہ تھا جب پی ایل او (PLO) کے لیڈر وارسا یادگار پر سالانہ تقریب میں پھول چڑھاتے تھے۔

واپس آج کے دور میں آتے ہیں۔ ہمیں اس انسانی حقیقت کو بھی سمجھنا ہو گا کہ جیسے جیسے استعمار اپنے زیر کنٹرول لوگوں پر ظلم و ستم بڑھاتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کے کارپردازوں میں بنیادی انسانی صفت یعنی انسانیت کی کمی ہوتی جاتی ہے۔ آج کی اسرائیلی حکومت میں شامل لوگوں میں دائیں بازو کے انتہا پسند اور مذہبی قدامت پسندوں کی اکثریت ہے اور ان کی زیر استعمال زبان ان کی ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ ذہنیت ”موت کے رقص“ کو تیز تر کرتی نظر آتی ہے کیونکہ اس کو گھمنڈ ہے کہ اپنی طاقت کے استعمال سے وہ فلسطینی امنگوں کو ختم کر سکتے ہیں۔

اسرائیل اپنی اس پالیسی میں غلط ہے اور اس کی پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں جہاں فلسطینی انسان ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں رد عمل میں اس کے شہریوں کی حفاظت ایک خام خیالی ہے کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ اس کو جتنا دبایا جائے وہ اتنا ہی ابھرتی ہے

ڈاکٹر افتخار احمد، برطانیہ

Reference Link:- https://www.humsub.com.pk/526519/iftikhar-ahmad-18/

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *