وزیراعظم نے اس دورے کے دوران کراچی سرکلر ریلوے کے
منصوبے کو بھی حتمی شکل دی اور جلد اس پہ کام کا آغاز ہو جائے گا
چین کی 20ویں نیشنل کانگرس کے بعد شہبازشریف دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما ہیں
ایم ایل ون منصوبہ نہ صرف اپ گریڈ ہوگابلکہ نئے ٹریک بھی بچھائے جائیں گے، ریل کی رفتارموجودہ 65کلومیٹر فی گھنٹہ سے بڑھا کر 160کلو میٹر گھنٹہ تک پہنچ جائے گی
وزیراعظم محمد شہبازشریف نے اس مہینے کے آ غاز پہ عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم لی کی کیانگ(Li ke Qiang)کی دعوت پر دو روزہ سرکاری دورہ کیا ۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران وزیراعظم شہبازشریف کئی مرتبہ چین جا چکے ہیں اور تمام چینی قیادت سے کئی مرتبہ مل چکے ہیں بلکہ بعض رہنمائوں سے ان کے بہت اچھے مراسم استوار ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد یہ ان کا پہلا دورہ تھا اس لئے اس کی اہمیت ذرا انفرادی تھی۔ چین کی 20ویں نیشنل کانگرس کے بعد وزیراعظم شہبازشریف پہلے غیر ملکی رہنما ہیں جنہوں نے چین کا دورہ کیا۔ اس حوالے سے بھی ان کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل رہا۔ اس مختصر دورے میں وزیراعظم نے چینی صدرشی چن پنگ، وزیر اعظم لی کی کیانگ(Li ke Qiang) کے علاوہ لی چان شو جو کہ سٹینڈنگ کمیٹی آف نیشنل پیپل کانگریس کے چیئرمین ہیں سے بھی ملاقات کی اور باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم نے صدر شی کو اگلے پانچ سال کیلئے دوبارہ سیکرٹری برائے کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔
صدر شی چن پنگ ایک مضبوط شخصیت کے حامل اوردور اندیش رہنما ہیں۔ وہ چین کے عوام سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ ہر وقت چینی قوم کی بہتری کیلئے کوشاں رہتے ہیں اور ان کی مکمل فلاح و بہبود چاہتے ہیں۔ ان کی انہی صلاحیتوں کے مدنظر چینی عوام ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ صدر شی انسان دوست رہنما ہیں اور اپنی قوم کے ساتھ پوری انسانیت کیلئے بھی فکر مند رہتے ہیں۔ ان کافلسفہ “Natons of shared futureایک انتہائی اہمیت کی سوچ ہے جو کہ بنی نوع انسانیت کی فلاح اور بہبود کی کوشش ہے۔
صدر شی چین میں مقبول ہونے کے علاوہ اقوام عالم میں بھی اپنا ایک خاص مقام بنا چکے ہیں اور عالمی سطح کے رہنما کے طور پر ابھر آئے ہیں۔اس تناظر میں ان کا اگلے پانچ سال تک دوبارہ سیکرٹری جنرل کے عہدے پر منتخب ہونا ایک خوش آئند بات ہے۔ اس طرح ان کی پالیسیوں میں تسلسل قائم رہے گا اور چین اسی رفتار سے ترقی کرتا رہے گا جس طرح گزشتہ کئی دہائیوں میں چین نے معجزاتی ترقی کی ہے۔
وزیراعظم کی ملاقاتوں کے دوران دو طرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیا گیا۔ دونوں ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ موجودہ عالمی صورتحال میں پاکستان، چین دوستی جو کہ آزمائی ہوئی ہے اور تمام موسموں میں یعنی ہر اچھے برے وقت کا ساتھ دیتی ہے اور تمام شعبوں میں مکمل ہم آہنگی کی حامل ہے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔یاد رہے کہ چین نے پاکستان کا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے، چاہے یہ1965ء کی جنگ ہو یا 1971ء کی، چاہے یہ کشمیر کا مسئلہ ہو یا افغانستان کا، چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ اقتصادی میدان میں بھی چین نے پاکستان کی ہمیشہ مدد کی ہے، پاک چین اقتصادی راہداری ایک انتہائی اہمیت کا منصوبہ ہے جو کہ پاکستان کی خراب معاشی صورتحال میں آکسیجن کا کام سرانجام دے رہا ہے۔
ماضی میں استعماری طاقتوں نے ایک دوست ملک کے ذریعے پاکستان کو دبائو میں لانے کی کوشش کی اوراس نے قبل از وقت قرضہ واپس مانگ لیا۔ پاکستان مشکل میں تھا اور قرضہ واپس کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہ تھا،ایسے میں چین نے ایک بلین امریکی ڈالر پاکستان کو دیے کہ اس کا قرضہ واپس کر سکے اور کسی استعماری طاقت کے سامنے بلیک میل نہ ہو۔چند ماہ بعدایک بلین امریکی ڈالر مزید مانگ لئے۔ اس مرتبہ بھی چین نے پاکستان کی مدد کی اور فوراً رقم کا انتظام کرکے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا۔
اقوام متحدہ میں کئی مرتبہ کوشش کی گئی کہ پاکستان کو مشکل میں ڈالا جائے اور مکمل تخریب کار ملک قرار دیا جائے لیکن چین نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی، چین سکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر ہے اور ویٹو پاور کا حامل ہے۔ چین کی وجہ سے پاکستان متعدد بار مشکلات سے نکلا۔
چین کے پاکستان پر احسانات کی فہرست طویل ہے لیکن پاکستان بھی اپنی بساط کے مطابق چین کا ساتھ دیتا رہا ہے۔ چاہے سنکیانگ مسئلہ ہو یا تبت کا، چاہئے ہانگ کانگ کا مسئلہ ہو یا تائے وان کا، پاکستان نے ہمیشہ سے چینی موقف کی حمایت کی ہے اور بین الاقوامی سطح پر چین کا ساتھ دیا ہے۔دونوں ممالک میں مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور تعاون اور اعتماد کی فضا قائم ہے،وزیراعظم کے دورے میں چینی قیادت نے پاکستان سے دوستی کا اعادہ کیا اور اسے مزید فروغ دینے کا اظہار کیا جبکہ پاکستان نے بھی چین سے تعلقات کواپنی خارجہ پالیسی کا کارنر سٹون قرار دیا اور مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی سے آگے بڑھنے کا اعادہ کیا۔پاک چین اقتصادی راہداری پر بھی تفصیلاً بات چیت ہوئی اور اسے مزید بہتر بنانے پر اتفاق رائے ہوا۔ سی پیک میں توسیع لائی جائے گی، مزید پراجیکٹ شروع کئے جائیں گے، اس میں تیزی لائی جائے گی اور ہائی کوالٹی پر بھرپور توجہ دی جائے گی۔
ایم ایل ون منصوبہ جو کہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔یہ منصوبہ نہ صرف اپ گریڈ ہوگابلکہ نئے ٹریک بھی بچھائے جائیں گے۔ ریل کی رفتارموجودہ 65کلومیٹر فی گھنٹہ سے بڑھا کر 160کلو میٹر گھنٹہ تک پہنچ جائے گی۔ شمال سے جنوب کو ملانے والا یہ ایک بڑا منصوبہ ہے۔ اس کی تکمیل کے بعد نہ صرف فاصلہ کم ہو جائے گا بلکہ اعلیٰ رفتار کی وجہ سے سفر کا دورانیہ بھی کم ہو جائے گا۔سفر اور تجارتی سامان کی ترسیل میں بہتری آئے گی اور تجارتی سرگرمیاں بڑھ جائیں گی۔ ملکی معیشت کو تقویت ملے گی۔ عام آمی کو فائدہ ہوگا۔ایم ایل ون کے علاوہ کراچی سرکلر ریلوے کی بھی بات ہوئی ہے۔ یہ ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ کراچی کو اچھی سفری سہولیات مہیا کی جائیں، عوامی امنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے اس دورے کے دوران کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو بھی حتمی شکل دیدی ہے اور جلد اس پر کام کا آغاز ہو جائے گا۔
سفری سہولیات، مال کی نقل و حرکت، کسی بھی معاشرے میں اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کے طول و عرض میں موٹرویز اور ہائے ویز کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ مزید بہتری بھی لائی جا رہی ہے۔ نئے منصوبہ بھی شروع ہو چکے ہیں یا ابھی منصوبہ بندی کی سٹیج پر ہیں۔ ریلوے کی اپ گریڈیشن کے بعد یقیناً اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہو جائے گی اوروہ دن دور نہیںجب پاکستان اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے گا۔
گوادر جو کہ سی پیک کا مرکز ہے اس کی ترقی پر بھی بات چیت ہوئی۔ جاری پراجیکٹس کی رفتار تیز کرنے کی راہ ہموار کی گئی اور کئی نئے منصوبوں کی بھی نشاندہی ہوئی ۔ گوادر مستقبل کا پورے خطے کا تجارتی مرکز بننے جا رہا ہے، اس کی قدرتی گہرائی اور محل و قوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور سی پیک میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے جسے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔اسکے ساتھ زراعت،کان کنی،آ ئی ٹی اورسوشو ایکو ڈویلپمنٹ سیکٹر میں بھی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، صحت کے شعبہ کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دیا جائے گا، صنعتی میدان میں تعاون بڑھایا جائے گا۔ڈیجیٹل اور گرین کوریڈورکو فوقیت دی جائے گی۔وزیراعظم نے شمسی توانائی کو اہمیت دینے کی بات بھی کی اور چینی قیادت نے چینی کمپنیوں کی شمولیت کو ترجیحی بنیادوں پر یقین دہانی کروائی ہے۔
پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کو بہتر بنانے کیلئے شمسی توانائی کو بروئے کار لانا چاہتا ہے اور چین شمسی توانائی میں پوری دنیا میں سب سے آگے ہے۔ پاکستان چینی ترقی اور تجربہ سے مستفید ہونا چاہتا ہے۔ حکومت پاکستان نے دس ہزارمیگا واٹ شمسی توانائی کے منصوبے پر اظہار خیال کیا ہے اور متعدد چینی کمپنیاں اس میں دلچسپی کا اظہار کر چکی ہیں۔
دونوں ملکوں نے اعادہ کیا ہے کہ وہ اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے ہر ممکن تعاون کریں گے۔ بالخصوص کسی تیسرے ملک کی طرف سے دبائو، تخریب کاری اور نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ چینی حکومت نے چینی باشندوں اور ان کی املاک کے تحفظ کے لئے اقدامات کی بھی تعریف کی اور اسے تسلی بخش قرار دیا ۔دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے اور چین ہر ممکن طور پرتعاون کرے گا۔ پاکستانی برآمدات کو فروغ دینے کیلئے چین پاکستان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا، اس ضمن میں چین پاکستان میں ٹیسٹنگ لیب بھی بنائے گا اور تکنیکی مدد بھی فراہم کرے گا، خنجراب میں سہولیات کو بہتر کیا جائے گا اور زمینی رابطہ بڑھایا جائے گا۔ زمینی راستے سے بھی تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔
چین نے ای کامرس کے میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے اور پاکستان اس سے مستفید ہو سکتا ہے، چین نے اس حوالے سے بھی ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔غربت کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات کے عزم کا اعادہ کیاگیا ہے اور چین کے تجربات سے مستفید ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ چین نے تقریباً 800ملین لوگوں کو خطِ غربت سے نکالاہے اور ایک معتدل امیر معاشرہ قائم کر دیاہے۔ دونوں ممالک فضائی رابطے بڑھانے کے لئے اقدامات بھی کریں گے اور سفری سہولیات کو بہتر بنائیں گے۔
اس کے علاوہ سلامتی سے متعلقہ بین الاقوامی امور بھی زیر بحث آئے۔ خاص کر کشمیر کا معاملہ بھی زیر بحث آ یا۔چین اور پاکستان کے موقف میں مکمل ہم آہنگی ہے اور دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پرامن طریقے سے حل ہو۔ افغانستان کی صورتحال بھی زیر بحث آئی اور دونوں ملک مل کر افغانستان کے امن اور ترقی کیلئے تعاون کریں گے۔ اس امر پر بھی زور دیا گیا کہ یو این چارٹرکے مطابق گلوبلائزیشن اور آ زاد تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔پاکستان نے چین کی طرف سے پیش کردہ جی ڈی آئی اور گلوبل ڈیویلپمنٹ انییشی ایٹو کی تائید کی۔
امید کی جانی چاہئے کہ وزیراعظم کا یہ دورہ انتہائی دورس نتائج کا حامل ہوگا اور اسکے اثرات و ثمرات جلد نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔یہ دورہ اقتصادی تعاون میں معاون ثابت ہوگا اور اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور آنے والے دنوں میں دنیا میں بڑھتی ہوئی تلخیاں کم کرنے میں بھی مفید ثابت ہو گا۔ مبصرین اس دورہ کو ماضی کے تمام دوروں سے منفرد اور زیادہ اہمیت کا حامل بھی قرار دے رہے ہیں۔
Reference Link:- https://mag.dunya.com.pk/index.php/aalmi-amoor/4741/2022-11-20