چین کی بیسویں نیشنل کانگریس،فیصلے اورترجیحات

https://googleads.g.doubleclick.net/pagead/ads?client=ca-pub-2531167394992967&output=html&h=600&slotname=2728717222&adk=4190107815&adf=1027791633&pi=t.ma~as.2728717222&w=300&lmt=1667831982&format=300×600&url=https%3A%2F%2Fmag.dunya.com.pk%2Findex.php%2Fban-ul-aqwami-ufaq-%2F4712%2F2022-11-06&wgl=1&uach=WyJXaW5kb3dzIiwiMTAuMC4wIiwieDg2IiwiIiwiMTA3LjAuMTQxOC4yNCIsW10sZmFsc2UsbnVsbCwiNjQiLFtbIk1pY3Jvc29mdCBFZGdlIiwiMTA3LjAuMTQxOC4yNCJdLFsiQ2hyb21pdW0iLCIxMDcuMC41MzA0LjYyIl0sWyJOb3Q9QT9CcmFuZCIsIjI0LjAuMC4wIl1dLGZhbHNlXQ..&dt=1667831982040&bpp=139&bdt=1927&idt=641&shv=r20221101&mjsv=m202211020101&ptt=9&saldr=aa&abxe=1&correlator=4887549666162&frm=20&pv=2&ga_vid=476118886.1667831982&ga_sid=1667831983&ga_hid=751900842&ga_fc=1&u_tz=300&u_his=1&u_h=768&u_w=1366&u_ah=728&u_aw=1366&u_cd=24&u_sd=1&dmc=8&adx=155&ady=436&biw=1349&bih=657&scr_x=0&scr_y=0&eid=44759875%2C44759926%2C44759837%2C42531706%2C31070722%2C44770880%2C44775016%2C21065725&oid=2&pvsid=1287856623489080&tmod=1345016125&wsm=1&uas=0&nvt=1&eae=0&fc=896&brdim=0%2C0%2C0%2C0%2C1366%2C0%2C1366%2C728%2C1366%2C657&vis=1&rsz=%7C%7CpeE%7C&abl=CS&pfx=0&fu=0&bc=31&ifi=1&uci=a!1&fsb=1&xpc=C43b0cSKYY&p=https%3A//mag.dunya.com.pk&dtd=717

عوامی جمہوریہ چین کے سیاسی نظام میں نیشنل کانگرس ایک انتہائی اہم پلیٹ فارم ہے۔ یہ ہر پانچ سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتی ہے اور اس میں پورے ملک سے وفود شرکت کرتے ہیں۔ ہر صوبے، ہر نسل، ہر مذہب اور ہر طبقہ کے لوگوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ عمومی طور پر نیشنل کانگرس میں ملکی صورتحال ، علاقائی اور بین الاقوامی تمام امور زیر بحث آتے ہیں۔ملک کا دستور اور قیادت کی تبدیلی جیسے اہم امور بھی اسی پلیٹ فارم میں طے کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کی حکومتی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے اور اگلے پانچ سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ ترجیحات کی وضاحت کی جاتی ہے اور حصول کا طریقہ کار وضع کیا جاتا ہے۔ 

مبصرین کے مطابق جو ممالک چین کے ساتھ کھڑے رہیں گے مستقبل انہی کا ہوگا

یہ حقیقت ہے کہ چین ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے اور وہ اس دور سے نکل آیا ہے جہاں کوئی دوسرا ملک اسے پچھاڑ سکے،چین کی ترقی کو روکنا اب ممکن نہیں

پہلی نیشنل کانگرس 1921ء میں منعقد ہوئی تھی اور موجودہ نیشنل کانگرس اس سلسلے کی بیسویں کڑی ہے ۔
بیسویں نیشنل کانگرس کے اہم فیصلہ جات کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
1-چین کی مرکزی قیادت کا انتخاب ہوا۔ صدر شی چن پنگ بلا مقابلہ سیکرٹری جنرل اور مرکزی عسکری کمیشن کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ یاد رہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی 1921ء میں بنی تھی اور اس کے تقریباً96 ملین رکن ہیں اور یہ حکمران جماعت ہے جو دنیا کی قدیم ترین اور سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے ۔
2- سٹینڈنگ کمیٹی آف پولیٹکل بیورو آف کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی کا انتخاب ہوا۔اس بیورو نے تمام تر سیاسی اور انتظامی فیصلہ سازی کرنا ہوتی ہے۔ یہ بیورو مشاورتی عمل کا اعلیٰ ترین پلیٹ فارم ہے اور صرف پارٹی سیکرٹری جنرل کو جواب دہ ہوتا ہے۔
3-اس کانگرس میں 24ارکان پولیٹکل بیورو کے بھی منتخب ہوئے۔ اسی کانگرس میں سیکرٹری ڈپٹی سیکرٹری اور ممبران برائے ڈسپلن انسپکشن کمیشن کا انتخاب بھی مکمل کیا۔
4- فیصلوں کے مطابق نظریاتی طور پر چین اپنی مخصوص سوشلزم نظام کو جاری رکھے گا اور اپنی اصلاحات کی پالیسی کو جاری رکھے گا۔ نظریاتی اور سیاسی نظام حکومتی میں کوئی تبدیلی نہ آئے گی۔
5-عوامی خدمت، عوامی فلاح کو فوقیت دے گا ۔ عوام کا دل جیتے گا۔
6-خود انحصاری اور خود اعتمادی کو فروغ دے گا۔
7-ترجیحی بنیادوں پر مسائل کو حل کرنے کی پالیسی اپنائی جائے گی اور تمام خطرات اور چیلنجز کا مقابلہ کیا جائے گا۔
8-قانون سازی میں وسعت اور بہتری لائی جائے گی۔ نظام کو مزید بہتر کیا جائے گا اور فعال بنایا جائے گا اور سختی سے نافذ کیا جائے گا۔
9-عوامی جمہوریہ چین ترقی کرکے اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ اب ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر نمودار ہو رہا ہے۔ چین کا بین الاقوامی کردار بڑھ رہا ہے اور دور اندیشی کے ساتھ عالمی امور میں بھرپور کردار ادا کرے گا۔
10- ماڈرنائزیشن کا ہدف طے پایا ہے اورآنے والے دنوں میں ہر میدان میں جدت لانی ہے۔ چاہے زراعت ہو، صنعت ہو، عسکری اور دفاعی میدان ، تعلیم ہو یا ٹیکنالوجی کا میدان، ہر محاذپرجدت کو فروغ دیا جائے گا۔
11-تمام طبقات کا معیار زندگی بلاتفرق بہتر بنایا جائے گا۔
12-ارتقائی اور مادی میدان میں جدت لائی جائے گی اور واضح تبدیلی نظر آئے گی۔
13-انسانوں اور قدرتی ماحول میں ہم آہنگی پیدا کی جائے گی یعنی ماحول اور موسمی تبدیلی پر بھی کام ہوگا۔ماحول دوست ٹیکنالوجیز متعارف کروائی جائیں گی۔
14-امن، ہم آہنگی اور سلامتی کو فروغ دیا جائے گا۔ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے انسان دوستی، بھائی چارے اور احترامِ آدمیت کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
15- 2035ء تک چین کو جدید سوشلسٹ اور ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کرنے کا ہدف طے پایا ہے۔
16-پارٹی کی بالادستی کو اہمیت دی جائے گی اور اس کی قیادت میں مناسب تبدیلیاں لائی جائیں گی۔
17-اصلاحات کے عمل کو مزید وسعت دی جائے گی جواعلیٰ سطح پر نافذ کی جائیں گی۔
18-چین نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ اس کی محنت اور مستقل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ یہ جدوجہد نہ صرف جاری رکھی جائے گی بلکہ اس میں تیزی اور وسعت بھی لائی جائے گی۔
19-اعلیٰ کوالٹی کی سوشلسٹ معیشت کو اپنایا جائے گا۔
20-صنعتی میدان میں انقلاب برپا کیا جائے گا ۔ تحقیق کے ذریعے ہائی ٹیک کو فروغ دیا جائے گا۔
21-دیہات کے نظام کو بہتر کیا جائے گا اور اتنا بہتر کیا جائے گا کہ دیہاتی شہر آنے سے گریز کریں گے۔
22-نہ صرف چین بلکہ پورے خطے میں سازگار ماحول پیدا کیا جائے گا تاکہ سبھی یکساں طور پر ترقی کریں۔
23-چین نے گزشتہ چار دہائیوں سے ’’اوپننگ اپ‘‘کی پالیسی بنا رکھی ہے اور نتیجتاً بے مثال ترقی کی۔اس میں اصلاحات کرکے مزید تیزی لائی جائے گی۔
24-تعلیمی شعبہ میں عوامی امنگوں کے مطابق بہتری لائی جائے گی
25-سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو ترقی کیلئے زینہ کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
26- ایچ آر کے میدان میں افرادی قوت کو تیار کیا جائے گا جو آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگا۔
27-چین ایک خاص قسم کی جمہوریت پر یقین رکھتا ہے دنیا اس بات پر قائل ہے کہ چینی طرز جمہوریت کی بدولت چین نے بے پناہ ترقی کی ہے ۔اگلے پانچ سال کیلئے یہ منصوبہ بندی بھی کی ہے کہ اس طرز جمہوریت میں اصلاحات لائی جائیں عوام کی اقتدار میں شمولیت کو یقینی بنایا جائے اور عوامی رائے کا احترام کیا جائے۔
28-مشاورت کے عمل کو بہتر بنایا جائے۔ اعلیٰ قیادت میں بھی عوامی رائے کو شامل کرنے کا بندوبست کیا جائے۔
29-گائوں دیہات کی سطح پر بھی جمہوری طریقے سے نمائندگی دی جائے گی اور مرکزی سطح پر مختلف طبقوں کی موزوں نمائندگی بڑھائی جائے گی۔
30-ایسی پالیسیاں واضح کی جائیں گی کہ تمام طبقات میں اعتماد کی بنیاد مستحکم ہو اور ایک قوم کے طور پر ابھرے۔
31- ضروری قانون سازی کی جائے گی تاکہ ایک مضبوط اور مستحکم مخصوص چینی طرز کا سوشلسٹ لیگل نظام معرض وجود میں آئے۔
32-عوامی سطح پر اور نچلی سطح پر بھی انتظامی اصلاحات لائی جائیں گی
33-قانون کی بالادستی قائم کی جائے گی اورکوئی بھی فرد قانون سے بالا تر نہ ہو گا، انصاف سب کیلئے یکساں ہوگا۔
34-چینی روایات کو فروغ دیا جائے گا، تاریخی ورثہ کی حفاظت کی جائے گی اور اپنے ماضی کو نہ بھولا جائے گا۔
35-عوام کامعیار زندگی بلند کیا جائے گا، ایسی اصلاحات متعارف کروائی جائیں گی کہ ہر فرد مستفید ہو کر اپنی زندگی بہتر کر سکے۔
36-ذرائع آمدن بڑھانے والی پالیسیوں کا نفاذ ہوگا ۔
37-نئی ملازمتیں پیدا کی جائیں گی اور کاروبار کے مواقع پیدا کئے جائیں گے۔
38- سوشل سکیورٹی کے نظام کو بہتر کیا جائے گا، عام لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
39-صحت کے شعبہ کو اہمیت دی جائے گی، علاج معالجہ کی سہولتوں کو بہتر بنایا جائے گا،صحت کے انتظامات کئے جائیں گے اور لوگوں کی درازی عمر کی کوشش کی جائے گی۔
40-ایک ملک اور دو نظام کے نظریہ کو قائم رکھا جائے گا، ہانگ کانگ اور مکائو کا تحفظ جاری رہے گا۔ تائیوان کی چین کیساتھ شمولیت کو ترجیح دی جائے گی۔
41-پوری انسانیت کیساتھ مشترکہ مستقبل کی بات کی جائے گی اور بنی نوع انسان کی مکمل فلاح اور تحفظ کی پالیسی پر کام کیا جائے گا۔
عوامی جمہوریہ چین اس کانگرس کے بعد ایک نئے جذبہ کیساتھ نئے دور کا آغاز کر رہا ہے، اس وقت کا چین زیادہ متحد ہے اور زیادہ طاقتور ہے۔
چین نے گزشتہ چار دہائیوں میں بہت کچھ سیکھا ہے اور آپ زیادہ سمجھدار ہیں، چین کی مادی ترقی، معاشی ترقی صنعت اور زراعت کی ترقی اور تجربات نے اسے اس مقام تک پہنچایا ہے کہ آئندہ مزید تیز رفتاری اور اعلیٰ کوالٹی کی ترقی کرے گا۔چین کا عالمی کردار بھی بڑھ جائے گا اور بین الاقوامی امور میں مثبت کردار ادا کر سکے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ چین ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے اور وہ اس دور سے نکل آیا ہے جہاں کوئی اور ملک اسے پچھاڑ سکے،چین کی ترقی کو روکنا اب ممکن نہیں ہے۔ مبصرین کے مطابق جو ممالک چین کے ساتھ کھڑے رہیں گے، مستقبل انہی کا ہوگا، جو ممالک چین کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ تمام مستقبل قریب میں پچھتائیں گے۔پاکستان چین کا روایتی اور بہترین دوست ہے اور آزمایا ہوا دوست ہے، ہماری دوستی ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی ، سمندر کی گہرائیوں سے بھی گہری اور فولاد سے زیادہ مضبوط ہے۔
وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف اس ماہ کے آ غاز میں چین کا دورہ کر کے واپس آ ئے ہیں۔ یہ ان کا بحیثیت وزیراعظم پہلا دورہ تھا اور بیسویں کانگرس کے بعد یہ پہلے غیر ملکی سربراہ تھے جنہوں نے چین کا دورہ کیا۔یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ یقینی بات ہے سی پیک زیر بحث آیا۔ مزید پراجیکٹس پر بات ہو ئی۔ حائل روکاوٹوں کو دور کرنے پہ بات ہو ئی۔اس سے بڑھ کر اس دورے کی سٹراٹیجک اہمیت بھی تھی۔ دنیا میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں،جہاں کئی ممالک اپنی صف بندی کر رہے ہیں، پاکستان اور چین میں مکمل ہم آہنگی انتہائی ضروری ہے ۔توقع ہے اس دورے کے بعد سی پیک میں تیزی اور وسعت بھی آئے گی۔ علاقائی امن و سکون میں بھی ممدو معاون ہوگا۔
چین روانگی سے وزیراعظم کے اولین دورے سے پیشتر چین کی حکومت نے پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر اضافی پچاس کروڑ یوآن کی امداد دینے کا فیصلہ کیا ۔ یہ اضافی رقم سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیرنو کیلئے ہے لیکن اسے پاکستان کے وزیراعظم کے ’’پرجوش خیرمقدم‘‘ کا اظہار بھی قرار دیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین کے موقع پر ایم او یوز پر دستخط کئے گئے۔ واضح رہے کہ ستمبر 2022میں چین نے پاکستان کیلئے 30کروڑ یوآن دینے کا اعلان کیا تھا لیکن معاہدے کے بعد چین کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیر نو کیلئے مجموعی رقم بڑھ کر 80کروڑ یوآن ہوجائے گی۔
ایسے میں یہ سوچنا یقینی طور پردرست ہوگاکہ چین کی ترقی یا اس کے ترقیاتی اہداف جہاں اپنے لئے اہمیت کے حامل ہیں وہیں پاکستان جیسے دوست ممالک کے لئے بھی ان کی بہت وقعت ہے۔

Reference Link:- https://mag.dunya.com.pk/index.php/ban-ul-aqwami-ufaq-/4712/2022-11-06

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *